بچپن کی عید اور نمک منڈی کے جھولے

جب بھی میں یہاں کنیڈا میں عید کا دن اپنے بچوں کیساتھ مناتی ہوں تو یہ کبھی ہو ہی نہیں سکتا کہ پشاور شہر کی عید کو یادوں کی چوکھٹ پر کھڑا نہ دیکھوں‘ زندگی کے34/35 سال اسلام آباد میں گزرے تقریباً زیادہ تر عیدیں ماں اور بہن بھائیوں کیساتھ گزریں‘ بعد کے سالوں میں جب ماں کا انتقال ہوگیا تو اپنے گھر اسلام آباد میں عید مناتی تھی کیونکہ وہ آواز ختم ہوگئی تھی جو بار بار بلاتی تھی‘ میرے بچوں کی عید اسی وقت تکمیل تک پہنچتی تھی جب تک وہ نانی کے گھر میں عید کے دن نہ گزار لیں اب جب بھی رمضان آتا ہے اور پھر یادیں ہوتی ہیں کہ ہر سو سامنے کھڑی ہوئی نظر آتی ہیں اپنے پشاور شہر کی سحری یاد آتی ہے‘ ماں کا آدھی رات کو ہی اٹھ کر پراٹھے پکانا یاد آتا ہے ان دنوں گیس کی سہولتیں تو تھیں نہیں‘ نہ بجلی کے چولہوں کا کوئی رواج تھا بس مٹی کے تیل کے چولہے ہوتے تھے ان چولہوں پر گھر کے سات آٹھ افراد کیلئے پراٹھے پکانا‘ دقت طلب کام تھا‘ پراٹھے ‘ ملائی‘ دہی‘ سالن سحری کے لازمی لوازمات میں شامل ہوتاتھا آج جب میں کئی دہائیاں ہوئے پشاور کو چھوڑ چکی ہوں‘ پشاور کا رمضان‘ پشاور میں اپنے آبائی گھر میں کھائی ہوئی سحریاں بہت یاد آتی ہیں پھر اتنا قرآن مجید کی تلاوت ہوتی تھی کہ قرآن پاک ختم کرنے کے باقاعدہ مقابلے ہوتے تھے سحری کے تمام برتن دھونا میرے ذمہ ہوتا تھا میں گلی کے فرش کو بھی دھو لیا کرتی تھی اس لئے کہ اس وقت گلی خالی ہوتی تھی اور پھر دن چڑھتے ہی سکول کی طرف راہ لی جاتی تھی اپنی ماں‘ اپنے نیک دل ہمسائے ہر رمضان میں جیسے میرے ساتھ ملنے آجاتے ہیں نعت خوان گلی میں آتے تھے نعتیں پڑھتے تھے لیکن ماں تو ان سے پہلے ہی اٹھ جایا کرتی تھی بڑا اچھا لگتا تھا کیوں ہم سب تو چھوٹے تھے اور اس محلے سے عید آنے کی بھی خوشی محسوس ہوتی تھی ان دنوں تو کوئی عید بازار لگتے تھے نہ میلے ہوتے تھے بس بازاروں میں رش بڑھ جاتا تھا‘ عید کی خریداری زیادہ ہو جاتی تھی ‘پشاور کی عورتیں تو ویسے بھی گھروں سے کم ہی نکلا کرتی تھیں‘ ساری خریداری مرد حضرات ہی کرکے لاتے تھے زیادہ سے زیادہ گلی میں پھیری لگانے والے کبھی سبزی‘ کبھی کپڑے‘ کبھی بستر کی چادریں بیچنے کیلئے نکل آتے تھے تو اس کی خریداری بہت ذوق و شوق سے کی جاتی تھی‘ وہ بھی ایسے باکمال سیلز مین ہوتے تھے کہ زیادہ قیمت پر اشیاءبیچ کر خاتون خانہ کو اس بات پر احساسات کی بارش پھوار کی صورت میں کرتی رہتی ہے پشاوریوں کے گھروں میں جس جوش و خروش سے سوئیوں کا پکوان تیار ہوتا تھا وہ لذت اور ذائقے میں کسی شیرخورما یا کسی اور طرح کی سوئیوں میں نہیں ہوتا تھا ابلی ہوئی سوئیاں‘ دیسی گھی کے تڑکے کے ساتھ دودھ ملائی اور شکر کے ساتھ کھائی ہوئی بیویاں مرتے دم تک یادوں کے ساتھ جڑی رہیں گی نہ کبھی زندگی میں پھر ایسا ذائقہ ملا نہ ایسی خوشی ‘اس بچپن کی عید کے دن ماں کے ہاتھ کی سوئیاں کھانے کو ملتیں‘ نمک منڈی کے جھولے بھی یادوں کے آس پاس رہتے ہیں کچھ سکے ہاتھ میں رکھ کے ابا نمک منڈی میں لگے ہوئے جھولوں کے پاس لے جاتے تھے ‘شاید زندگی میں یہ سب سے بڑی خوشی سب سے بڑا میلا اور سب سے بڑے جھولے ہوتے تھے‘ پیسے بہت جلد ختم ہو جاتے تھے اور لکڑی کی گاڑی جو چلتے ہوئے آوازیں نکالتی تھی اور ایک لمبے تیلے کے ساتھ لگی ہوئی پھول نما بھمبھیری خرید کر جیسے دنیا کے قیمتی ترین کھلونے خرید لیتے تھے اگر کوئی ہمسایہ یا رشتہ دار چار آنے آٹھ آنے یا ایک روپیہ عیدی دیتا تھا تو گویا نعمت مل جاتی تھی عید کے دن کی ایسی خوشی زندگی پھر ڈھونڈے سے نہیں ملی نہ اب وہ گھررہے‘ نہ گھروں میں رہنے والے سادہ دل‘ سادہ لوح مائیں رہیں‘ عرصہ ہوا سب قبرستانوں میں ابدی نیند سونے کیلئے چلے گئے ہیں ‘بھائی تھے تو وہ بھی ایک ایک کرکے ماں باپ کے پاس چلے گئے نہ میکہ رہا نہ میکے کی گلیوں کے وہ پیارے ہمسائے‘ جب کبھی گلی کے آگے سے گزرتی ہوں تو اجنبی چہروں کو گلی کے باہر اندر آتے جاتے دیکھا کرتی ہوں ان کی اولادیں گھروں کو بیچ کر کہیں اور جا بسی ہیں‘ زمانہ اور وقت بہت آگے چلا گیا ہے اولادیں بھی کیا کریں کب تک وہ ماں باپ کے دو تین مرلوں کے گھر زندگی گزاردیں آخر سب نے آگے بڑھنا ہی ہوتا ہے وہ ہی دو دو مرلے کا گھر جو دنیا کا سب سے بڑا گھر لگا کرتا تھا اب وہ کھڈے کی مانند سکڑ جوگیا ہے‘ زندگی آگے بڑھ گئی ہے لوگ دور نکل گئے ہیں‘ ماں باپ البتہ وہی لیٹے ہیں جہاں ان کو ہمیشہ کیلئے چھوڑ آئے تھے وہ کبھی بھی نہیں بھولتے ۔عید‘رمضان پر تو جیسے اپنی جگہوں سے باہر آکر میرے ساتھ میری یادوں میں جمع ہو جاتے ہیں ہر پل‘ ہر گھڑی‘ نظر آتے ہیں ان کی باتیں‘ ان کی آوازیں آتی ہیں‘ اللہ پاک ان کی قبروں پر رحمتوں کی بارش جاری رکھے(امین)