میری کتاب کاایک باب  

بیسویں صدی کی تیسری دہائی کے آخری سال میں پشاور شہر کے مشہور بازار قصہ خوانی میں ایک ایسا خونی واقعہ پیش آیا جس نے نہ صرف ہندوستان بھر کے مسلمانوں کو صدمے اور درد و غم میں مبتلا کر دیا بلکہ برصغیر کی تاریخ کو بھی اک نیا موڑ دیا‘ یہ وہ وقت تھا جب پورے برصغیر پر برطانوی راج تھا اور غلامی کی زندگی میں مسلمانوں ہندوؤں اور سکھوں کی وہی حالت تھی جو اک محکوم اور لاچار قوم کی ہوتی ہے‘ ان کے دلوں میں انگریز ظالم آقاؤں کیلئے نفرت‘ بددلی اور غصے کے شدید ترین جذبات پائے جاتے تھے۔ قصہ خوانی بازار میں انگریز فوج کی فائرنگ سے سینکڑوں مسلمانوں کے قتل عام کا واقعہ دراصل تحریک خلافت کی حمایت اور ساردھا ایکٹ کی مخالفت کی ایک کڑی تھی‘ امپیریل لیجسلٹیو کونسل آف انڈیا نے ایک قانون سازی 1929ء میں کی تھی اس قانون کا بل ہربیلاسی ساردھا نے پیش کیا تھا جو خود بھی جج تھا اور آریہ سماج کا ممبر تھا یہ بل 28 ستمبر 1929ء کو پاس ہو گیا تھا اور اس بل کے قانون کا اطلاق یکم اپریل 1930ء سے ہونا تھا‘ اس بل کے تحت نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کی شادی کے وقت عمر کا تعین تھا اور یہ قانون ہندوستان میں رہنے والے ہر مذہب کے لوگوں پر نافذ العمل قرار دے دیا گیا اور قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کیلئے سزائیں مقرر کر دی گئیں۔ نومبر 1929ء میں ساردھا بل کے خلاف تحریک خلافت کے زیر اہتمام مظاہروں میں شدت آ گئی‘ سید عطاء اللہ شاہ بخاری‘ مفتی عبدالحکیم پوپلزئی‘ علامہ عبدالرحیم پوپلزئی اور کفایت اللہ دہلوی جیسے رہنماؤں نے انگریز حکومت کی طرف سے اس قانون کی سخت مخالفت کی‘ پشاور کے لوگوں کے خیال تھا کہ اس قانون کے تحت انگریز حکومت ہمارے مذہبی قوانین پر حملہ کرنا چاہتی ہے اور سزائیں مقرر کر کے اپنے خزانوں کو بھرنے کا نیا کھیل شروع کر دیا گیا ہے۔ شاہی باغ کے جلسے میں دو قراردادیں منظور کی گئیں اول حکومت اپنا بل واپس لے‘ دوئم ان اصلاحات کا دائرہ صوبہ سرحد تک نہ پھیلایا 
جائے۔ تحریک خلافت کے جھنڈے تلے ساردھا ایکٹ کے خلاف بہت زور و شور سے مخالفت جاری تھی‘ اسلامیہ کلب ہال اور مسجد قاسم علی خان میں مذہبی رہنماؤں کی ساردھا قانون کے خلاف تقاریر ہوتی رہیں۔ بڑے بڑے جلسوں میں حاجی کرم الٰہی‘ حکیم احمد بخش‘ سید حسین شاہ‘ اللہ بخش یوسفی‘ عبدالغفور آتش‘ حافظ عبدالمنان‘ کفایت اللہ دہلوی‘ عبدالحکیم پوپلزئی‘ ڈاکٹر گیلانی‘ سید ملک شاہ‘ غلام نبی‘ محمد عثمان جیسے لوگ شامل ہوتے تھے۔ قصہ خوانی کے قتل عام کا فوری محرک گھنٹہ گھر پشاور کے نوجوان سبھا کے دفتر میں موجود دو کانگریسی رہنماؤں کی گرفتاری سے شروع ہوا‘ جنہیں گرفتار کر کے پولیس کی لاریوں میں بٹھا دیا گیا اور وہ سارا ہجوم جو تھوڑی دیر پہلے ان کی تقاریر سن رہا تھا ان لاریوں کے پیچھے نعرے لگاتا ہوا چل پڑا‘ ایک فوجی گاڑی تیز رفتاری کے ساتھ ہجوم پر چڑھ دوڑی اور درجنوں شہریوں کو روندتے ہوئے آگے بڑھ گئی‘ زخمیوں کو شہداء کو اٹھانے کے لئے لوگ آگے بڑھے جن پر فائر کھول دیا گیا جن سے مزید لوگ شہید ہوئے۔ اس واقعے کے خلاف احتجاج کرنے کے لئے ہزاروں لوگ قصہ خوانی بازار میں جمع ہو گئے‘ جہاں خون کی ہولی کھیلی گئی اور بکتر بند گاڑیاں‘ مشین گنیں احتجاج کرنے والے لوگوں پر برس پڑیں‘ سینکڑوں مسلمانوں کی شہادتیں ہوئیں‘ سینکڑوں لاشوں کو انگریز فوجی گاڑیوں میں غائب کرنے میں کامیاب ہوئے‘ میڈیا تک حقیقت پہنچنے کے ذرائع اتنے محدود تھے کہ خبریں برعکس شائع ہوئیں‘ ریڈیو و ٹیلی ویژن کا وجود نہ تھا اخبارات تک لوگوں کی رسائی بہت ہی کم تھی‘ پشاور شہر کے تقریباً ہر گھر سے 24 اپریل 1930ء کو جنازہ اٹھا‘ اگر جنازہ موجود نہ تھا تو ماتم برپا تھا۔ آج بھی ہزاروں لوگ قصہ خوانی بازار میں شہداء کی یادگار کے نزدیک سے روزانہ گزرتے ہیں کتنے لوگوں کو علم ہے کہ یہاں 94 برس پہلے سینکڑوں نہتے اور بے گناہ لوگ اپنی آزادی کی جنگ لڑتے ہوئے شہید ہو گئے۔ جلیانوالہ باغ کے بے گناہوں کی طرح جن کو ایک ثقافتی میلے میں کرنل ڈائر نے مار ڈالا تھا‘ جلیانوالہ باغ پر تو برطانیہ کی ملکہ نے ہندوستان کے دورے کے موقع پر معافی مانگی تھی لیکن قصہ خوانی کے قتل عام کی معافی آج بھی برطانیہ پر ایک قرض ہے۔