پشاور: ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی رہنما شاندانہ گلزار کے خلاف ایف آئی اے کے نوٹس کو غیرقانونی قرار دے دیا۔
پشاور ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی رہنما و رکن قومی اسمبلی شاندانہ گلزار کی درخواست پر محفوظ فیصلہ جاری کرتے ہوئے ایف آئی اے لاہور کے نوٹس کو غیرقانونی دیتے ہوئے مسترد کردیا۔
19 صفحات پر مشتمل فیصلہ چیف جسٹس اشتیاق ابراہیم نے تحریر کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ نوٹس جاری کرنے میں جو میکنزم اپنایا گیا وہ بدنیتی پر مبنی اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ اعلیٰ عدالتیں نارمل حالات میں تحقیقات کے دوران مداخلت نہیں کرتیں مگر جب ریکارڈ پر بدنیتی نظر آرہی ہو تو پھر عدالت ایسے حالات میں خاموش تماشائی بن کر نہیں بیٹھ سکتی، سپریم کورٹ انور احمد بنام اسٹیٹ کیس میں قرار دے چکی ہے کہ تحقیقات کے دوران بدنیتی نظر آئی تو عدالت آئینی اختیار استعمال کرتے ہوئے مناسب آرڈر جاری کرسکتی ہے۔
فیصلے کے متن کے مطابق تحقیقاتی حکام کے پاس یہ اختیار نہیں کہ اپنی خواہشات کے مطابق تحقیقات کریں، ایف آئی اے کا اپنا سرکلر ہے کہ جب کسی کو نوٹس جاری کیا جاتا ہے تو اس کو ایک لسٹ فراہم کی جائے جس میں اس جرم کی نوعیت کے بارے میں معلومات ہوں۔
ہائیکورٹ نے اپنے فیصلے کہا ہے کہ درخواست گزار کو مارچ 2024 میں جو نوٹس جاری کیا گیا اس میں الزامات کی کوئی لسٹ فراہم نہیں کی گئی جو خود ایف آئی اے سرکولر کی خلاف ورزی ہے۔
درخواست گزار وکیل نے بتایا کہ کیس سیاسی بنیادوں پر بنایا گیا اور اس کا مقصد درخواست گزار کو ہراساں کرنا ہے ، کمپلینٹ میں تاریخ اور ڈائری نمبر موجود نہیں ہے۔ ریکارڈ پر بھی درخواست گزار کو جو نوٹس جاری کیا گیا ہے اس میں دن، تاریخ، وقت اور جگہ کا تعین نہیں کیا گیا۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے بتایا کہ نوٹس ایف آئی اے سائبر کرائم لاہور نے جاری کیا ہے، ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کے دائرہ اختیار پر سوال اٹھایا کہ اس درخواست کو یہ عدالت نہیں سن سکتی، یہ لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کریں۔
ہائیکورٹ نے اپنے فیصلے میں مزید کہا ہے کہ ایف آئی اے وفاقی ادارہ ہے اور پورے ملک میں اس کے دفاتر موجود ہیں، درخواست گزار اس صوبے کی مستقل رہائشی ہے اور ممبر قومی اسمبلی ہے۔
پشاور ہائیکورٹ نے کہا ہے کہ ریکارڈ سے ایسا کچھ ثابت نہیں ہوا کہ ایکس( ٹویٹر) پر پوسٹ کہاں سے کی گئی، جب جرم کی نوعیت اور جگہ کا تعین نہ کیا گیا ہو تو پھر اس صوبے کی ہائیکورٹ کے پاس اختیار ہے کہ اس کا نوٹس لے ، اور اس حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے بھی موجود ہیں۔