ساون کا انتظار

ساون تو کب کا شروع ہو چکا اب ساون کی جھڑی کب شروع ہو یہ تو اللہ ہی جانے‘ویسے تو اسی ساون میں ہمارے دیہات میں سہیلیاں سکھیاں درختوں پر جھولے ڈالتی ہیں اور شاعر ان کے جذبات کو الفاظ کا درج ذیل رنگ دیتے ہیں‘ساون کے جھولے پڑے  سجن ھمیں تم کہاں بھولے پڑے‘پر خدا لگتی یہ ہے کہ اس ماہ میں حبس کا راج ہوتا ہے اور بقول شاعر حبس اتنا شدید ہوتا ہے کہ لوگ لو کی دعا مانگتے ہیں۔ ساون کے بعد بھادوں کا جو مہینہ ہوتا ہے اس کی دھوپ اتنی  کڑی ہوتی ہے کہ اس سے بقول کسے گدھے بھی پناہ مانگتے ہیں‘ البتہ بھادوں کا ایک پلس پوائنٹ یہ ضرور ہے کہ اس کی شامیں خنک ہوتی ہیں جو آنے والے موسم سرما کی نوید سناتی ہیں۔ دنیا بھر میں ایک عرصے سے ائر پورٹس کے چاروں اطراف کئی کئی فرلانگ تک  گھروں اور دیگر عمارات کی تعمیر کی اجازت اس لئے نہیں دی جا رہی کہ جہاں جہاں آ بادی ہوتی ہے وہاں کھانے پینے کی چیزوں کی تلاش میں پرند و چرند پہنچ جاتے ہیں اور پھر ان سے لینڈنگ اور ٹیک آ ف کے موقع پر کئی ہوائی جہاز ٹکرا کر کریش ہو جاتے ہیں۔ اسلام آباد کے نئے ائرپورٹ کے گردو نواح میں جو حال ہی میں فنکشنل ہوا ہے‘ رہائش کے لئے کئی آبادیاں بن چکی ہیں اور کئی زیر تعمیر ہیں‘ نہ جانے متعلقہ حکام نے اس ضمن میں غفلت کا مظاہرہ کر کے ان کے بنانے والوں کو ان کی تعمیر کی اجازت کیوں دی ہے۔ چین کی پیپلز لبریشن آ رمی کے قیام کی 97ویں سالگرہ پر جی ایچ کیو  راولپنڈی میں سالگرہ کی تقریب کا انعقاد ایک اچھا اقدام تھا اور آ رمی چیف نے اس موقع پر اپنے خطاب میں یہ کہہ کر قوم کے جذبات  کی ترجمانی کی ہے کہ کوئی بھی طاقت چین سے دوستی اور بھائی چارہ ختم نہیں کر سکتی‘ تاریخ شاہد ہے کہ دنیا میں اگر مشکل کی گھڑی میں  کوئی پاکستان کا دوست  ثابت ہوا ہے تو وہ چین ہے‘1965 ء کی پاک بھارت جنگ میں چین کے اس وقت کے وزیراعظم چو این لائی نے پاکستان ائر فورس کے سربراہ کو کھلی پیشکش کر دی تھی کہ چین کی ائر فورس کے تمام جنگی جہاز پاکستان کے لئے حاضر ہیں وہ جب چاہے انہیں استعمال کر سکتا ہے۔لگ یہ رہا ہے کہ زیادہ تر امکانات یہ ہیں کہ شاید  بائیڈن امریکہ کے صدارتی الیکشن سے دست بردار ہو جائیں اور ان کی پارٹی ان کی جگہ کسی اور امیدوار کو نامزد کر دے‘ ایک عرصے سے بائیڈن پارکنسن کی بیماری میں مبتلا ہیں جو انسانی یادداشت کو ختم کر دیتی ہے اور پھر وہ عمر کے اس حصے میں قدم رکھ چکے ہیں کہ ان سے پیشتر 79 کی عمر میں کسی بھی امریکی نے صدارتی الیکشن نہیں لڑا‘بائیڈن کو خود بھی اپنی کبیر سنی کا احساس ہو چکا ہے اور انہوں نے کہا ہے کہ اگر ان کے ڈاکٹروں نے انہیں گرین سگنل نہ دیا تو وہ الیکشن نہیں لڑیں گے۔ اگلے روز امریکہ کی فوجی کمانڈ میں ایک خاتون کو فور سٹار جنرل کا رینک دے دیا گیا جو ہمارے واسطے  تو حیرت  کی بات ہے پر امریکہ کی فوج میں تو عرصہ دراز سے کئی خواتین ملٹری افسران جرنیلز کے عہدے پر کام کر رہی ہیں۔ جب کسی حکومت کے خلاف بپھرے ہوئے عوام اس قدر تشدد پر اتر آئیں کہ وہ جیل کے دروازے توڑ کر قیدیوں کو زبردستی چھڑا لیں تو اسے بغاوت کہتے ہیں‘جس  کا مظاہرہ گزشتہ چند دنوں سے ڈھاکہ میں نظر آ رہا ہے‘ بنگلہ دیشی عوام نے بھی گزشتہ تیس برسوں میں سکھ کا سانس نہیں لیا‘ ایک مسئلہ سے ان کی جان چھوٹتی ہے تو دوسرا ان کے سر پر کھڑا ہو جاتا ہے۔ تیسری دنیا کے اکثر ممالک کا المیہ یہ ہے کہ مقبول عام سیاسی رہنما عوام کو  الیکشن میں سبز باغ دکھا کر اقتدار تو حاصل لیتے ہیں پر اس کے بعد وہ ان سے کئے گئے وعدوں پر عمل نہیں کرتے جس سے پھر ملک انتشار کا شکار ہو جاتا ہے۔