کمزور کرنسی

کسی زمانے میں دنیا کی مالیاتی مارکیٹوں میں افغانستان کی کرنسی کی گراوٹ اور زبوں حالی کے بارے ہمارے بزرگ طنزیہ لہجے میں کہا کرتے تھے کہ اگر سبزی منڈی ایک کلو ٹماٹر خریدنے جانا ہے تو افغانی کرنسی کے نوٹوں سے ایک سالم بوری بھر کر ساتھ لے جانا ضروری ہے‘خدا کبھی بھی ہماری کرنسی کا ایسا حشر نشر نہ کرے اور وہ کہیں اتنی نہ گرے کہ جتنی ہمارے بچپن کے زمانے میں افغانی کرنسی گری تھی۔ یہ خیال ہمیں آج کے اخبارات میں یہ خبر پڑھ کر آیا کہ سونے کی قیمت میں اضافے کے بعد آج کل سونے کا بھا ڈھائی لاکھ روپے فی تولہ ہو گیا ہے بالفاظ دیگر آج اگر کوئی ایک تولہ کی ہاتھ کی صرف ایک انگوٹھی بنانا چاہے تو اس کی جیب میں ڈھائی لاکھ روپے ہونے ضروری ہیں ۔ہم نے وہ زمانہ بھی دیکھا ہے جب سونے کا نرخ صرف ایک سو روپے فی تولہ ہوا کرتا تھا‘ یہ بات ان تمام لوگوں کے لئے لمحہ فکریہ سے کم نہیں کہ جنہوں نے اپنی بچیوں کے ہاتھ پیلے کرنے ہیں کیونکہ جس معاشرے میں ہم سانس لے رہے ہیں وہ جہیز کی لعنت میں بھی بری طرح مبتلا ہے جو صدیوں تک ہندﺅوں کے ساتھ اکھٹا رہنے سے ہمارے شادی بیاہ کے کلچر کا بھی حصہ بن چکی ہے ۔امریکہ سمیت متعدد ممالک نے اسرائیل پر ممکنہ حملے کے پیش نظر تل ابیب کے لئے جو اپنی پروازیں معطل کی ہیں اس سے اس بات کا عندیہ ملتا ہے کہ جلد یابدیر ایران حماس کے سربراہ کے قتل کا بدلہ لینے کے لئے اسرائیل کے خلاف عسکری کاروائی کر سکتا ہے ۔گوادر میں بلوچ یک جہتی کمیٹی کا قیام اس لئے بھی ضروری تھا کہ بلوچستان کو آج امن و آشتی کی جس قدر ضرورت ہے‘ شاید اس سے پہلے کبھی نہ تھی کیو ںکہ آج بلوچستان کا امن داﺅ پر لگا ہواہے اور وطن عزیز اور چین کی قربت اس ملک کے دشمنوں کو ایک آ نکھ نہیں بھاتی ‘جس کے تحت چین سی پیک کے ذریعے پاکستان کی معشیت کو چار چاند لگانے کے لئے کئی ترقیاتی منصوبوں پر پاکستان میں عمل پیرا ہے ۔گو کہ ٹانک جنوبی وزیرستان کے دھانے پر واقع ہے‘ پر اس کا امن عامہ اس قدر وطن عزیز کے دشمنوں کے جس قدر نشانے پر آج کل ہے پہلے کبھی نہ تھا۔ٹانک ایک نیم قبائلی semi tribal علاقہ ہے جس میں جنوبی وزیرستان کے مسعود قبائل کی ایک بہت بڑی تعداد رہائش پذیر ہے یہ مثل مشہور ہے کہ جنوبی وزیرستان کو اگر چھینک بھی آ جائے تو ٹانک کو زکام لگ جاتا ہے‘ ایک عرصہ سے ٹانک سے ملحقہ لکی مروت کا نیم قبائلی ضلع بھی امن عامہ کے لحاظ سے کافی ڈسٹرب رہا ہے حالانکہ لکی مروت کے باسی ہمیشہ سے بڑے صلح جو ثابت ہوئے ہیں‘ پر کچھ عرصے سے دہشت گردوں نے وہاں بھی اپنی کمین گاہیں بنا رکھی ہیں ۔ وزیر اعظم کا یہ خدشہ بجا ہے کہ پاور سیکٹر اور ایف بی آ ر میں کرپشن سے ملک کی ناﺅ ڈوب سکتی ہے۔ ارباب اقتدار کو اس ضمن میں یہ بات اپنے پلے البتہ باندھ لینی چاہیے کہ کرپشن تب تک اس ملک سے ختم نہیں کی جاسکتی کہ جب تک چین کی طرح کرپٹ افراد کو بر سر عام سزائیں نہیں دی جاتیں۔اس ملک پر تقریباً تقریباً ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والوں نے حکمرانی کی ہے ان سب کو کئی کئی برسوں تک ایوان اقتدار میں براجمان ہونے کا موقع ملا ہے پر انہوں نے ایسا کوئی انقلابی کام نہیں کیا کہ جس سے اس ملک کے عام آدمی کی مالی یامعاشی زندگی میں کوئی بہتری آئی ہو جو آج بھی جوں کی توں ہے وہ آج بھی پہلے کی طرح مالی طور پر خجل خوار ہے ‘ہاں البتہ اشرافیہ مالی طور پر دن بہ دن مالدار سے مالدار ضرورہوئی ہے کیونکہ حکمرانوں کی ہر پالیسی عوام دوست ہونے کے بجائے خواص دوست تھی ‘افسوس اس بات کا ہے کہ حکمرانوں نے اقتدار میں آنے کیلئے عوام سے جو وعدے کئے تھے وہ ان سے پھر گئے تھے‘ الیکشن میں حصہ لینے والے عوام سے وعدے وعید تو بہت کئے جاتے ہیں ‘پر عوام پر ان کا ایک فیصد اثر ہوتا نظر نہیں آ رہا اور اس کی بنیادی وجہ غالباً یہ ہے کہ ماضی میں بھی الیکشن کے دوران ان سے الیکشن لڑنے والوں نے بڑے بڑے دلفریب وعدے کئے تھے پر رات گئی بات گئی کے مصداق جب الیکشن ہو گئے اور وعدے کرنے والوں کا الو سیدھا ہو گیا تو وہ تمام وعدے ہوا ہو گئے ‘اسی وجہ سے آج اس ملک کے ووٹرزمایوسی کا شکار ہیں۔بہتر ہو گا اگر اب عوام کو مزید سبز باغ دکھانے کے بجائے ارباب اقتدار کسی ٹھوس لائحہ عمل کا مظاہرہ کریں‘موجودہ اشرافیہ کو اس کا ادراک ضرور ہے اور وہ اس سلسلے میں عوام کو مایوسیوں سے نکالنے کیلئے ہر ممکن اقدامات لے رہی ہے اکر وہ اس میں کامیاب ہوجاتی ہے اور عوام کو بڑا ریلیف دلادیتی ہے تو ملک کا مستقبل بہتر ہونے کی امید پیدا ہوجائے گی ۔