مقام شکر کہ ایک لمبے جمود کے بعد ہماری ہاکی ٹیم میں کچھ حرکت تو دکھائی دی ایشیائی ہاکی چیمپئن شپ میں گو کہ وہ فائنل تک نہ پہنچ سکی پربقول کسے مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا اس نے اچھے کھیل کا مظاہرہ کر کے یہ ثابت ضرور کر دیا کہ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی‘ ہمیں وہ گھڑی کل کی طرح یاد ہے جب 1960ء کے ورلڈ اولمپکس میں روم کے مقام پر پاکستان کی ہاکی ٹیم نے بھارت کو ایک گول سے شکست دے کر گولڈ میڈل حاصل کیا تھا اور اس طرح پاکستان ہاکی میں ورلڈ چیمپئن بن گیا تھا‘ اس سے پہلے یہ اعزاز بھارت کی ہاکی ٹیم کے پاس تھا اس پاکستانی ٹیم میں حمیدی‘ نصیر بندہ‘ وحید نور عالم‘ مطیع اللہ‘ منیر ڈار‘ عاطف حبیب کڈی‘ اصلاح الدین اور غلام رسول جیسے مایہ ناز کھلاڑی کھیلے تھے جس وقت نصیر بندہ نے حمیدی کے پاس پر بھارت پر واحد گول گول کیا تو اس وقت راولپنڈی میں خدا نے اس کے بیٹے کو جنم دیا جس کا اس دن پاکستان کی جیت کے حوالے سے اس کے اہل خانہ نے ہاکی خان نام رکھ دیا تھا چونکہ ان دنوں ہاکی کا ٹائٹل
ہندوستان کے پاس تھا 1960ء میں جب پاکستان نے یہ ٹائٹل حاصل کیا تو اس وقت بھارت کے وزیر اعظم نے ایک بڑا ڈپلومیٹک قسم کا بیاں دیا تھا کہ شکر ہے کہ ہاکی کا عالمی ٹائٹل برصغیر میں ہی رہ گیا ہے پاکستان کی اس ٹیم کے کپتان کا نام حمید تھا پر وہ حمیدی کے نام سے مشہور تھے اور رائٹ ان کی پوزیشن پر کھیلتے تھے وہ پاکستان آرمی میں تھے اور بعد ازاں بریگیڈیئر کے رینک تک پہنچے تھے وہ پاکستان ہاکی ٹیم کے 1954ء میں کپتان بنے اور 1960ء تک انہوں نے پاکستان ہاکی ٹیم کی قیادت کی ان کے چھوٹے بھائی رشید جونیئر بھی پاکستان کی ہاکی ٹیم کے بعد میں ممبر رہے تھے 1960ء کے بعد 1990ء تک شاید ہی کسی عالمی سطح کے ہاکی ٹورنامنٹ میں کوئی ایسا ٹورنامنٹ ہوگا کہ جس میں ہماری
ہاکی ٹیم وکٹری اسٹینڈ تک نہ پہنچی ہو پھر اس کے بعد ہماری ہاکی پر ایسا زوال آیاکہ ابھی تک وہ اپنا پرانا کھویا ہوا مقام حاصل نہیں کر سکی ہے ہاکی اور سکواش وہ دو گیمز ہیں کہ جن میں ہم ابھی تک ان کی نشاۃ ثانیہ کے منتظر ہیں حمیدی کا تعلق بنوں سے تھا حمیدی اور رشید جونیئر کی طرح قاضی محب جن کا تعلق بھی بنوں سے تھا پاکستان ہاکی ٹیم کے رکن رہے ہیں وہ سینٹر ہاف کی پوزیشن پر کھیلتے تھے جبکہ حمیدی اور رشید جونیر فارورڈ لائن میں کھیلتے تھے خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے حیات اور فضل الرحمان بھی کئی عرصے تک ہماری قومی ہاکی ٹیم کے رکن رہے جب تک گرین ہوٹل پشاور کے مالک لالہ ایوب بقید حیات تھے پشاور میں ہاکی کھلاڑیوں کا ان کے ہوٹل میں جمگھٹا رہتا تھا کیونکہ اپنی جوانی میں وہ خود بھی ہاکی کے کھلاڑی رہے تھے اور بعد میں وہ گریڈ ون کے ہاکی کے انٹرنیشنل امپائر بھی بنے تھے اور سپین کی حکومت کی دعوت پر انہوں نے ایک سال تک سپین جاکر وہاں سپین کی ہاکی ٹیم کی کوچنگ بھی کی تھی 1948ء سے لے کر 1955ء تک وہ پاکستان ہاکی فیڈریشن کے ایک سرگرم رکن تھے اور پاکستان کی ہاکی ٹیم کی سلیکشن میں ان کی رائے کو بڑی اہمیت دی جاتی تھی۔