خیبرپختونخوا کی طالبہ جو ’گھونگھوں‘ کی افزائش سے لاکھوں کما رہی ہیں

کیڑے مکوڑوں سے بھی لاکھوں کروڑوں کا بزنس کیا جا سکتا ہے ایسا سننے میں عجیب لگتا ہے، مگر صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع مانسہرہ کی رہائشی سدرہ نامی خاتون نے حقیقت میں ایسا کر دکھایا۔

رپورٹ کے مطابق سدرہ نے جب اسنیل ( گھونگوں کی فارمنگ کا آغاز کیا) تب ان کے اہلخانہ سمیت رشتے داروں نے انہیں کہا کہ کیڑے مکوڑوں کا کاروبار کر کے کیا ملے گا؟

مگر سدرہ نے جب پودوں پر سست روی سے چلنے والے معمولی گھونگوں کے حوالے سے انٹرنیٹ پر ریسرک کی تو معلوم ہوا کہ اس کا استعمال بیوٹی مصنوعات میں بڑے پیمانے پر کیا جاتا ہے۔

سدرہ نے بتایا کہ انھیں انٹرنیٹ پر تحقیق سے معلوم ہوا کہ سنیل ’سلائم‘ کا کورین بیوٹی مصنوعات میں استعمال کیا جاتا ہے جن کی پاکستان سمیت دنیا بھر میں بڑی مانگ ہے۔

رپورٹ کے مطابق اسنیل کے جسموں سے ایک قسم کی جھلی نما رطوبت نکلتی ہیں جسے سنیل سلائم کہا جاتا ہے۔ اسے کورین چہرے کی کریموں اور دیگر بیوٹی پروڈکٹس میں استعمال کرتے ہیں۔

سدرہ نے بتایا کہ وہ اپنے سنیل فارم اور لیبارٹری میں گھونگھوں سے سلائم نکال کر اس سے بیوٹی پروڈکٹس بناتی ہیں اور اسے مختلف فارما کمپنیوں کو بھی فروخت کرتی ہیں۔

اسنیل فارمنگ سے کتنی کمائی ہوتی ہے؟

 کے پی کی رہائشی سدرہ نے بتایا کہ انہوں نے اس سیزن تقریباً 20 ہزار کلو گھونگھے جمع کیے ہیں۔ جبکہ ایک کلو سنیل 200 روپے کلو کے حساب سے خریدا جاتا ہے۔ تقریباً چالیس لاکھ روپے کا صرف سنیل خریدا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ تقریباً پندرہ کلو سنیل سے ایک کلو سلائم حاصل ہوتا ہے، یعنی 20 ہزار کلو سنیل سے تقریباً 1333 کلو سلائم نکالا گیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ایک کلو سلائم تقریباً 22 ہزار کا فروخت ہوتا ہے، اس کے لیے پندرہ کلو سنیل پہ تقریباً سات ہزار روپے کا خرچ آتا ہے۔ اس حساب سے بیس ہزار کلو سنیل پہ تقریباً 93 لاکھ روپے کا خرچہ ہوا۔ (اس میں سنیل خریدنا، فارم کا خرچہ، کھانا، مزدور، گاڑی کرایہ، سلائیم ایکسٹریشن، لیب ورک وغیرہ شامل ہے)۔

سدرہ کے مطابق ایک کلو مایا سلائم تقریباً 22 ہزار روپے فروخت ہوا۔ یوں تقریباً دو کروڑ 93 لاکھ روپے کا سلائم فروخت کیا گیا۔

تقریباً بیس ہزار کلو سنیل سے حاصل شدہ 1333 کلو سلائم تقریباً دو کروڑ 93 لاکھ روپے میں فروخت ہوا۔ جبکہ ان سب پر تقریباً 93 لاکھ روپے کا خرچہ آیا۔

سدری کا مزید کہنا تھا کہ اس حساب سے پورے سیزن جون، جولائی، آگست، سمتبر اور اکتوبر میں مجموعی طور پر انھیں تقریباً دو کروڑ روپے کا منافع ہوا۔ اب ان کے پاس ایسے چار فارمز ہیں جہاں 32 لوگ کام کرتے ہیں۔

سدرہ ہزارہ یونیورسٹی مانسہرہ کی طالبہ رہی ہیں۔