تازہ ترین واقعات کا ایک اجمالی ذکر

اس سے پیشتر کہ ہم آج کے کالم میں اہم سیاسی خبروں کا ایک خلاصہ پیش کریں‘ اپنے بعض، قارئین کے فلمی ذوق سلیم کے پیش نظر صوفیہ لارین کا ذکر کرناضروری سمجھتے ہیں جو اگلے روز 90برس کی ہو گئی ہیں‘فلمی دنیا کی انگریزی زبان میں گزشتہ سو برس میں کام کرنے والی خاتون اداکاراؤں کے مقابلے میں جتنی مقبولیت ان کے حصے میں آئیہے وہ کسی اور اداکارہ کو نہیں ملی‘ گو کہ ان کا تعلق اٹلی سے تھا پرہالی ووڈ  Hollywood میں بننے والی فلمیں ان کی وجہ شہرت بنی ہیں‘ ان کے متحرک دور میں کئی اور مایہ ناز اداکارائیں بھی ہالی وڈ کی فلموں میں جلوہ گرہوتی تھیں جیساکہ الزبتھ ٹیلر‘ انگرڈ برگمین‘ شرلے میکلین اور برجٹ بارڈوڈ وغیرہ‘ پر صوفیہ لارین کی بات ہی کچھ اور ہے‘گو کبیر سنی اورہڈیوں کی بیماری کی وجہ سے اب وہ کافی عرصے سے متحرک نہیں رہیں اور آمد و رفت کے لئے وہیل چیئر wheel chairکی محتاج ہیں‘  انہوں نے ہالی وڈ کے ہر ممتاز ایکٹر کے مد مقابل کام کیاہے‘اب ان میں کوئی بھی شاید بقید حیات نہیں ہے نہ اب جان وین زندہ ہیں نہ فرینک سناٹرا نہ راک ہڈسن نہ کلارک گیبل نہ آلیور لارنس اور نہ ہمفری بوگارٹ‘1960ء کی دہائی میں بننے والی  انگریزی فلموں میں اگر کسی کا طوطی بولتا تھا تو وہ صوفیہ لارین کا ہی تھا، یہ وہ دور تھا جب برصغیر میں جن خاتون اداکاراؤں کواردو فلموں کی کامیابی تصور کیا جاتا تھا ان کے نام درج ذیل ہیں‘مدھوبالا‘میناکماری‘گیتا بالی‘نرگس‘ نوتن‘ مسرت نذیر‘صبیحہ خانم‘ نیر سلطانہ شمیم آراء اورشبنم وغیرہ۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ بالی وڈہو کہ ہالی ووڈ یا لالی وڈ‘ 1940ء اور 1970ء کے درمیانی عرصے میں بننے والی فلموں کوہی کلاسیکل فلموں کادرجہ دیا گیا ہے‘یہ وہ دور تھا جب درج ذیل ا ردو پنجابی اور انگریزی فلمیں تخلیق ہوئیں جو بے مثال قرار دی گئیں۔ وعدہ‘ مغل اعظم‘گنگا جمنا‘آ وارہ‘دیوداس‘دیوار‘ داغ‘نیادور‘بابل‘گمنام‘ قاتل‘انتظار‘باجی‘ کرتار سنگھ‘ ندیا کے پار‘ دیدار‘ آہ‘جس دیش میں گنگا بہتی ہے‘ سنگم‘کوہ نور‘ لیڈر‘انداز‘میلہ‘ آ ن‘ مدر انڈیا رام اور شیام‘جھومر‘پیغام‘آ دمی‘پیاسا‘نیند‘کوئل‘موسیقار‘انار کلی‘ہم لوگ وغیرہ‘تو بات ہم نے صوفیہ لارین سے شروع کی تھی اور وہ کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔لم کے اختتام پر درج ذیل ایشوز کا ذکر بے جا نہ ہوگا۔انسداد دہشت گردی کے واسطے پاک چین مشترکہ پولیس مشقیں کرانے کا فیصلہ ایک صائب اقدام ہے‘کسی بھی روزنامے کو اٹھا کر پڑھیں‘ آپ کو اخلاق باختہ جرائم کی بے شمار خبریں ملیں گی‘کونسا اخلاقی جرم نہیں کہ جس میں ہم من حیث القوم مبتلانہ ہوں‘ اشیا ئے خوردنی میں ملاوٹ زوروں پر ہے‘ سڑکوں پر راہگیروں سے پرس اور موبائل چھینے جا رہے ہیں اور مزاحمت کی صورت میں ان کو گولی کانشانہ بنایا جارہاہے۔نہ غزہ میں اسرائیلی بربریت ختم ہونے کا نام لے رہی ہے اور نہ وزیرستان میں وطن عزیز کے دشمنوں کے ایجنٹوں کی دہشت گردی کی کاروائیوں میں کوئی کمی دکھائی دے رہی ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا ہر سال ستمبر کے ماہ میں ایک رسمی اجلاس ہوتا ہے جس میں ہر ملک کا سربراہ  شرکت کرتا ہے امسال پاکستان کے لئے ممکن نہ ہوگا کہ وزیراعظم یا وزارت خارجہ کا کوئی بھی اہم رکن اس میں شرکت کر سکے کیونکہ ہمارے حکام شنگہائی تعاون کے اہم اجلاس میں مصروف ہوں گے۔یہ خبر خوش آئند ہے کہ اب 50 فیصد تجارت گوادر کی بندرگاہ سے ہوا کرے گی اسی طرح یہ بات بھی حوصلہ افزا ہے کہ حکومتی اداروں کی نجکاری سے سالانہ 6 ہزار ارب روپے حاصل ہوں گے‘غزہ میں مسلمانوں پر اسرائیل جو مظالم ڈھا رہا ہے وہ ان مظالم سے بدرجہا زیادہ ہیں جو ہٹلر نے دوسری جنگ عظیم میں ڈھائے تھے ان پر نہ اقوام متحدہ کا دل پگھل رہا ہے اور نہ انسانیت اور جمہوریت کے علمبردار امریکہ کا‘خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ نے بالکل درست کہا ہے کہ اگر بجلی کے صارفین بجلی کی چوری سے باز نہیں آ ئیں گے تو لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ کیسے ممکن ہے پر بجلی کی چوری تب ہی ختم ہو گی جب ان کے گھروں کے بجلی کنکشن کاٹے جائیں۔