سابق وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے دور میں شروع ہونے والا پشاور کے 5 تھانوں میں کروڑوں روپے خرچ کر کے ’’آسان انصاف مرکز‘‘ منصوبہ ناکام ہو گیا۔
5 تھانوں کی پرانی عمارتوں کی مرمت کر کے، رنگ روغن اور تھانوں کی چار دیواری کر کے اسے ’’آسان انصاف مرکز‘‘ کا نام دے دیا گیا، عوام کی سہولت کے لیے بنائے گئے ’’آسان انصاف مرکز‘‘ اب پرانے طرز میں واپس آ گئے۔
فقیر آباد ، حیات آباد ٹاون ، شرقی اور چمکنی پولیس اسٹیشنز کو بطور ماڈل پولیس اسٹیشن بنانے اور انہیں آسان انصاف مرکز کا نام دیا گیا لیکن صرف ایک سال میں ’’آسان انصاف مراکز‘‘ کا حلیہ بگڑ گیا۔
تھانہ فقیر آباد میں خواتین سائلین کے لیے انتظار گاہ تک موجود نہیں، ویمن ڈیسک بھی تھانہ فقیر آباد میں برائے نام ہی رہ گیا، اسی طرح تھانہ چمکنی میں ڈی آر سی آفس ختم کردیا گیا ، جبکہ تھانے کا روزنامچہ ،اور حوالات پرانی حالت میں واپس آگیا۔
ذرائع کیمطابق خیبر پختونخوا حکومت نے تھانوں کی صورتحال بہتر بنانے کیلئے پشاور میں کرائے کی عمارتوں میں موجود پولیس اسٹیشن کو ختم کرکے ان کیلئے متبادل جگہ اور نئے تھانوں کی تعمیر کا پلان بنایا تھا جس پر محکمہ داخلہ اور محکمہ پولیس نے ملکر کام کیا لیکن سابق وزیر اعلی محمود خان کی حکومت ختم ہوتے ہی ’’آسان انصاف مرکز‘‘ پراجیکٹ کو بریکیں لگ گئیں۔
تھانہ پھندو ، تھانہ پہاڑی پورہ، تہکال سمیت پشاور میں پشاور پولیس چوکیاں دور جدید میں بھی کرایے کے مکانوں اور عمارتوں میں بتدریج موجود ہیں، ذرائع کیمطابق آسان انصاف مراکز پر خرچ ہونیوالی بھاری رقم کے حوالے سے بھی محکمہ پولیس نے خاموشی اختیار کر لی جبکہ رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے زریعے معلومات دینے پر بھی محکمہ پولیس نے چپ سادھ لی ہے۔