میلوں پے پھیلی ہوئی تنہائی

مشرق ہو یا مغرب بزرگ لوگوں کی ضروریات‘ خطرات اور ان کے خیالات سب ایک جیسے ہو جاتے ہیں‘ فرق صرف اتنا ہے کہ یہاں مغرب میں سرویز ہوتے ہیں‘ بزرگوں کی ضروریات کو کسی حد تک پورا کر دیا جاتا ہے اور مشرق میں ہمارے بزرگ ان تھوڑی بہت نعمتوں سے محروم ہوتے ہیں جن میں مغرب ذرا ترقی یافتہ ہے۔ کینیڈا کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ایجنگ نے اپنے ایک سروے میں خبردار کیا ہے کہ بزرگوں میں 41 فیصد تنہائی اور ذہنی صحت کی خرابی موجود ہے‘ 60 سال اور اس سے اوپر کے وہ لوگ جنہیں رشتہ دار اور دوست بوڑھا سمجھ کر اکیلا چھوڑ دیتے ہیں انہوں نے اس کی مثال ایک ایسے مریض سے دی ہے جو نوجوان ہے اور 15 سگریٹ روزانہ پیتا ہے جو اس کے پھیپھڑے خراب کرنے میں تعاون کرتی ہیں اور وہ سانس کی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ بزرگوں کا تنہا رہنا ان کے روزانہ پندرہ بیس سگریٹ پھونکنے کے کے مترادف ہے۔ ہم اپنے معاشروں میں بھی دیکھتے ہیں کہ بزر گوں کو اپنوں سے دور کر دیا جاتا ہے‘ دوری کا مطلب یہاں مغرب میں تو اولڈ ہوم یا اکیلے گھروں میں رہنا ہوتا ہے لیکن دوری کا مطلب یہ بھی ہے کہ بزرگ گھر میں موجود ہیں لیکن ہم ان سے کوسوں دور ہیں‘ وہ ایک کونہ منتخب کر لیتے ہیں چاہے وہ ان کی چارپائی ہو یا کوئی صوفہ یا پھر کوئی گلی کا تھڑا اور ہم سمجھتے ہیں کہ وہ اس حال میں خوش ہیں اور اگر خوش نہیں بھی ہیں تو ان کی عمر کا تقاضا ہے کہ وہ ایسے ہی رہیں۔ ایک سروے کے مطابق 80 سال کی عمر کے لوگ باقاعدہ اپنے مرنے کی دعائیں کرنے لگتے ہیں اور اپنے آپ کو مار دینے کے لئے کوشش بھی کرتے ہیں‘ دو قسم کے رشتوں سے ان کا سامنا ہوتا ہے ایک وہ جو‘ ان سے دور رہتے ہیں اور وہ خود اپنی خرابی صحت یا ٹرانسپورٹ کے مسائل کی وجہ سے وہ ان تک نہیں پہنچ سکتے‘ اس میں پیسہ بھی شامل ہوتا ہے جو عموماً بزرگوں کے پاس نہیں ہوتا کیونکہ اس عمر تک پہنچ کر وہ بیشتر جمع پونجی اپنوں پر خرچ کر چکے ہیں‘ دوسرے رشتے وہ ہوتے ہیں جو قریب رہ کر بھی ان سے کلومیٹروں کی دوری پر ہوتے ہیں‘ وہ بالکل بھی نہیں سمجھتے کہ ہم لوگ جوان‘ بوڑھے‘ بچے سب سے پہلے معاشرتی طور پر ایک مخلوق ہیں اور ہمارا انحصار ایک دوسرے پر ہوتا ہے ہم اپنے آپ کو اس وقت توانا اور مضبوط سمجھتے ہیں جب اپنی کہانیاں اپنے خوبصورت یا بدصورت جذبات دوسروں سے بیان کرتے ہیں‘ ہمارے اندر کا شخص یہ سب بیان کرنے کے بعد ایک عجیب طرح سے صحت مندی سے ہم رکاب ہو جاتا ہے‘ اس کو نیند بھی آتی ہے‘ اسے خوشی بھی ملتی ہے‘ وہ روکھی سوکھی کھا کر بھی صحت مند رہتا ہے۔ ذرا سوچیں جب ہم اپنے بزرگوں سے یہ کہتے ہیں کہ نہ جانے آپ ہر وقت اپنی چیزیں رکھ کر کہاں بھول جاتے ہیں‘ یہ وہ الفاظ ہیں جن سے انہیں یہ احساس رہتا ہے کہ وہ بوڑھے ہو چکے ہیں اور کسی حد تک بے فائدہ بھی۔ آپ نے تجربہ کیا ہو گا کہ بزرگ اپنی باتوں کو دو دو تین تین بار بتاتے ہیں اور ہم اتنے ظالم ہیں کہ ہم کبھی بھی یہ کہنا نہیں بھولتے کہ یہ باتیں تو آپ ہمیں پہلے بھی بتا چکے ہیں جن پر وہ حیران ہوتے ہیں اور کسی حد تک شرمندہ بھی‘ کیونکہ ان کی ذہنی صحت پہلے جیسی نہیں ہے وہ کسی حد تک بھول چکے ہوتے ہیں کہ کون سی بات کب بتائی تھی اس لئے اپنی طرف سے وہ اس کو نئی بات سمجھتے ہیں‘ ہم یہ بات ذرا سخت لہجے میں کہتے ہوتے کبھی نہیں چوکتے کہ ”نہ جانے آپ کو یاد کیوں نہیں رہتا‘ آپ تو میری بات سننے اور سمجھتے ہی نہیں ہیں‘ میں بڑا مصروف ہوں زیادہ انتظار نہیں کر سکتا۔“ یہ باتیں وہ آپ کے منہ سے تواتر کے ساتھ سنتے ہیں نتیجہ کیا ہوتا ہے وہ آپ کو تنگ نہ کرنے اور آپ کو خوش کرنے کی خاطر اپنے پرابلمز اور چھوٹے چھوٹے دکھ آپ سے چھپانے لگتے ہیں‘ ہم کتنی آسانی کے ساتھ اپنے ان بزرگوں سے تلخ باتیں کرتے ہیں جنہوں نے زندگی کے تندرست و توانا دن رات آپ کی نشوونما‘ آپ کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے 
کیلئے گزار دیئے ہیں‘ آپ یہ کہتے ہوئے کبھی نہیں چوکتے کہ آپ بچوں کی طرح باتیں کیوں کرنے لگ گئے ہیں‘ اباجی آپ اتنا آہستہ کیوں ہیں بار بار کھڑے ہو کر آپ کے پہنچنے کا انتظار کر رہا ہوں‘ پھر جب ہم یہ کہتے ہیں آج تو میرے پاس وقت نہیں ہے وقت ہو گا تو ضرور آپ کی عینک کا شیشہ بدلوا دوں گا یا آپ کیلئے دوائیاں لے آؤں گا۔ تو اک لمحے کو سوچیں کہ آپ کے بزرگ اپنے آپ کو کتنا غیر اہم اور کتنا ہلکا سمجھنے لگتے ہیں‘ ضرورت اس بات کے سوچنے کی ہے آپ کے پاس ان کیلئے وقت نہیں ہے آپ ان کیلئے مشکل بن گئے ہیں‘ آپ کو یاد نہیں رہا کہ میرا ماں باپ یا کسی بھی بزرگ سے بات کرنے کا انداز کتنا بدل گیا ہے آپ ان کے ہاتھ سے ایک کام چھین لیتے ہیں جس کو وہ شوق سے کر رہے ہوتے ہیں‘ دوسرے لفظوں میں آپ ان کو باور کرواتے ہیں کہ آپ کیلئے یہ کام مشکل ہے ہم اس کام کے کرنے میں ان کی مدد بھی تو کر سکتے ہیں۔ جب انسان 60 سال‘ 70 سال یا اس سے اوپر کی سن میں چلا جاتا ہے تو یقینا کمزوری لاغر پن محسوس کرتا ہے اور رستے دشوار ہو جاتے ہیں‘ زندگی ذرا سی مشکل ہو جاتی ہے‘ سمارٹ فون‘ سمارٹ ٹی وی‘ ماڈرن کار ان سب کے استعمال کیلئے وہ نوجوان لوگوں کی مدد چاہتے ہیں ہم میں 
سے کتنے ہی لوگ ہیں جو اونچا سننا شروع کر دیتے ہیں اور وہ اس بات پر شرمندگی محسوس کرتے ہیں کہ دوسرے کیا کہہ رہے ہیں‘ خاص طور پر جب سب گروپ میں بیٹھے ہوتے ہیں تو وہ یہ ظاہر کرنا شروع کر دیتے ہیں کہ وہ پوری طرح سن رہے ہیں لیکن نتیجہ کیا ہوتا ہے کہ وہ پھر آہستہ آہستہ لوگوں میں بیٹھنا چھوڑ دیتے ہیں اور ایسی تنہائی میں اپنے آپ کو دھکیل دیتے ہیں جس کا انجام ذہنی صحت کی خرابی کی طرف جانا شروع کر دیتا ہے‘ میں اپنے بزرگ ساتھیوں کیلئے چند اچھی باتیں لکھنا چاہتی ہوں‘ ہم ایک بہت اچھی عمر کو پہنچ چکے ہیں ہم دیکھنے والوں کو پروقار اور خوبصورت نظر آتے ہیں‘ ہمارے پاس وہ سب کچھ بھی موجود ہے جو ہم کچھ بننے کے خواب دیکھا کرتے تھے اور اب تو ہم کام نہیں کرتے نہ ہی دفتر جاتے ہیں نہ گھر کا کام کرتے ہیں لیکن ہمیں ایک معقول رقم پنشن کی صورت میں مل جاتی ہے‘ ہم میں سے زیادہ لوگوں کے پاس اب بھی ڈرائیونگ لائسنس ہیں یہاں تک کہ اپنی پرانے ماڈل کی گاڑی بھی ہے تو پھر ضرور اقرار کیجئے کہ زندگی اب بھی اچھی ہے‘ ہم ہوشیار ہیں‘ ہمارا دماغ تھوڑا آہستہ ہو گیا ہے کیونکہ اس میں علم اور تجربات کا خزانہ جو بھرا ہوا ہے اگر ہم تھوڑی دیر کیلئے کچھ بھول جاتے ہیں کہ ہم نے کیا کرنا تھا‘ ہم نے عینک کہاں رکھی تھی ہم کیا کرنے کیلئے یہاں آتے تھے تو سوچئے کہ یہاں یہ ہماری یادداشت کا مسئلہ نہیں ہے‘ قدرت ہمیں یہ عنایت کرتی ہے ہم ذرا حرکت کرتے رہیں اپنے جسم کو تھکائیں‘ ہم یہ بات بھول جائیں کہ ہماری عمر زیادہ ہو گئی ہے‘ ماضی کی باتوں کو یاد نہ کریں‘ ناراض نہ ہوا کریں یہ عادت آپ کے اپنے لئے نقصان دہ ہے کسی کو آپ کی ناراضگی کی پرواہ تک نہیں ہے ہاں آپ اپنا نقصان کر سکتے ہیں یعنی اس بات کو سوچ سوچ کر بیمار ہو سکتے ہیں‘ آپ کو ہمیشہ اپنے خاندانوں‘ اپنے دوستوں کے بارے میں اچھے خیالات رکھنا ہیں‘ مثبت خیالات دماغ میں لائیں زندگی میں گزرے ہوئے خوبصورت لمحات کے بارے میں سوچیں اور ہمیشہ آج کے دن کیلئے جئیں‘ کل کیا ہو گا اس کو بھول جائیں‘ ہنسا کریں‘ اپنی رفتار سے چہل قدمی کریں‘ جتنی دور جا سکتے ہیں وہاں تک ضرور جائیں‘ پوتے پوتیوں کے ساتھ اپنے ساتھیوں کے ساتھ بھی وقت گزارنے کو ترجیح دیں‘ کوئی بھی فنکشن ہو اور آپ کے لئے دعوت نامہ ہو تو اس کو مت چھوڑیں ضرور جائیں‘ لوگوں کے درمیان رہنے کو ترجیح دیں‘ پانی پینے کے لئے کبھی پیاس کا انتظار نہ کریں‘ کثرت سے پانی پئیں‘ اپنے ڈاکٹر اور علاج کو یہ کہہ کر رد نہ کریں کہ شاید اب مجھے اس کی ضرورت نہیں‘ آپ کو ضرورت ہے اپنا چیک اپ کرواتے رہا کریں‘ آرام کرنے کیلئے تھکنے کا ہی انتظار نہ کریں بلکہ اچھی نیند لیں ہمیشہ بہترین کی امید رکھیں اور سب سے بڑھ کر اللہ کی ذات پر بھروسہ کبھی نہ چھوڑیں‘ تنہائی کو اپنے سے میلوں اور کوسوں دور اٹھا کر پھینک دیں۔