عتیق صدیق روزنامہ” آج“ کے صاحب طرز کالم نویس ہیں وہ گزشتہ دو دہائیوں سے روزنامہ ”آج“ میں اپنے قلم کے ذریعے اور خوبصورت عنوانات کے تحت ادب کی دنیا میں جہاد کر رہے ہیں‘ مجھے نیو یارک سے فون آیا آپ کیلئے کتاب بھیجنا چاہتا ہوں‘ اپنا ایڈریس بھیج دیں‘ مدت ہوئی وہ پشاور شہر کو خیر باد کہہ کر اپنے خاندان کے ساتھ نیو یارک میں رہائش پذیر ہیں لیکن میری طرح پشاور شہر سے ان کی محبت سانس کی ڈوری سے جڑی ہوئی ہے کچھ دنوں بعد ان کی نئی کتاب میرے ہاتھ میں تھی‘ جس کا نام ہے” تقویم افغان جنگ کے بیس سال“509 صفحات پر پھیلی ہوئی ان کی تحریریں ان کالموں کا مجموعہ ہیں جو انہوں نے افغان امریکہ جنگ کے آغاز سے لکھنا شروع کئے اور اپنے قارئین کو اس ہولناک جنگ کے ہر ہر لمحے سے آگاہ کرتے رہے ‘عتیق صدیقی کے حالات حاضرہ پر لکھے ہوئے کالم لاجواب ہوتے ہیں‘ میں خود ان کے کالم اس لئے بہت شوق وذوق سے پڑھتی رہتی ہوں کہ انٹرنیشنل ایشوز پر لکھنے والے اب بہت کم لکھاری اخبارات میں ایسے ہیں جو سچ کو اتنے آسان اور جامع الفاظ میں بیان کرتے ہیں کہ سچ بیان بھی ہو جاتے اور الفاظ پر حرف بھی نہ آئے‘ وہ اپنی خوبصورت کتاب ” افغان جنگ کے بیس سال“ میں روزنامہ ”آج“ کے بانی اور چیف ایڈیٹر مرحوم عبدالواحد یوسفی کو صفحہ19پر خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں” میرے آبائی شہر پشاور میں میرے کالمز کی باقاعدہ اشاعت میرے لئے اعزاز اور افتخار کا باعث ہے میں پشاور کے روزنامہ آج کے چیف ایڈیٹر عبدالواحد یوسفی مرحوم کی بخشش اور درجات کی بلندی کیلئے ہمیشہ دعاگو رہونگا رب العزت انہیں اپنی امان میں رکھے‘ یوسفی صاحب چھ عشروں تک خیبرپختونخوا کی صحافت سے وابستہ رہے ‘ان کی محنت توجہ اور رہنمائی نے اس صوبے کی صحافت کے خدوخال کو جس طرح سنوارا اس کے اثرات آج تک نمایاں ہیں‘ روزنامہ ”آج“ نے مجھے میرے آبائی شہر پشاور کے نیک دل اور خوش خلق لوگوں سے وابستہ رہنے کا موقع فراہم کیا‘ سچی بات یہ ہے کہ میں نے آج تک ایک کالم بھی ایسا نہیں لکھا جسے لکھتے وقت پشاور میری آنکھوں میں ایک روشنی‘ ایک جذبے اور ایک محبوب کی صورت میں موجود نہ تھا‘ نصف سے زیادہ زندگی اس شہر دل ربا سے ایک طویل فاصلے پر گزری مگر ہر وقت‘ ہرلمحے دل کی دھڑکن رہا‘ عبدالواحد یوسفی کے اس نخل سایہ دار کے ہر گل بوٹے روزنامہ” آج “کے علاوہ ان کے یہی کالمز نیو یارک عوام اور ایشیا ٹریبیون میں بھی شائع ہوتے رہے اور وہ ان کے ایڈیٹر صاحبان کیلئے بھی تشکر کے بے پناہ جذبات پیش کرتے ہیں” افغان جنگ کے بیس سال“ پر خود ہی وضاحت پیش کرتے ہوئے صفحہ نمبر26 پر لکھتے ہیں” اس کتاب کی اشاعت کاارادہ کر لینے کے بعد میں نے پھر سوچا کہ اس میں ایسی نئی بات کیا ہوگی جو قارئین کی توجہ حاصل کرلے گی ‘اس سوال کے جواب کیلئے میں نے تمام جمع شدہ کالموں کا مطالعہ کیا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ میں نے یہ کالم ایک حقیقت مندانہ اسلوب میں لکھے ہیں‘ امریکی اخبارات‘ تصنیفات اور نشریات ان کالموں کے بنیادی ماخذات ہیں‘ میں نے ان ماخذات سے خام مواد ضرور حاصل کیا ہے لیکن آراءاور تجزیئے صرف اور صرف میرے ہیں ” افغان جنگ کے بیس سال“ کی میری کتاب کے تمام کالم پاکستان اور امریکہ کے اخبارات میں باقاعدگی کے ساتھ چوبیس برسوں میں شائع ہوئے میں نے اس جنگ کے کسی بھی پہلو پر کوئی تحقیق تو نہیں کی مگر اتنا ضرور ہے کہ اس کتاب میں کئی ایسی معلومات ہیں جنہیں پاکستان کے میڈیا نے آج تک اجاگر نہیں کیا‘ تقریر و تحریر کے بادشاہ جناب ناصر علی سید نے اسی کتاب میں عتیق صدیقی کے کالموں کے مجموعے پر تبصرہ کرتے ہوئے خوبصورت الفاظ میں مصنف کو خراج تحسین پیش کیا ہے لکھتے ہیں امریکہ اور ان کے اتحادیوں کے جنگی جنوں اور انسان دشمنی کی داستان کو تاریخ کے اوراق بنانے والے انسان دوست عتیق صدیقی کے تجزیئے کبھی بوجھل ہوتے ہیں اور نہ ہی ان کی روانی میں کبھی کوئی کھنڈت پڑتی ہے عتیق صدیقی پشاور کے باسی ہیں جن کے ہمسائے میں گھنٹے بھر کی ڈرائیو پر افغانستان کی سرحد ہے جہاں کے رہنے والوں کی پشاور آمدورفت ہمیشہ سے معمول کی ایک سرگرمی رہی ہے اور پشاور کے لوگ ان کو غیر ملکی کی بجائے ہمسایہ سمجھتے ہیں” افغان جنگ کے بیس سال“ ایک ضخیم کتاب ہے جس میں100 کالمز شائع ہوئے‘ دراصل یہ کتاب تاریخ اور تحقیق کرنے والے طالب علموں کیلئے گراںمایہ خزانہ ہے جو مستقبل میں اپنی اہمیت کے لحاظ سے کتابوں کی دنیا میں ریفرنس کی کتاب کے طور پر پوری شدومد کیساتھ شامل رہے گی ” افغان جنگ کے بیس سال“ دیدہ زیب چھپائی اور جاذب نظر ٹائٹل و افغان شہریوں کی جنگ زدہ تصاویر پر مشتمل ہے اس کتاب پر عتیق صدیقی کے باکمال دوستوں جناب ارشاد صدیقی ‘ جناب مامون ایمن ‘ جناب واصف حسین واصف‘ ڈاکٹر اشرف عدیل اور پروفیسر خالدہ ظہور کے بھی خوبصورت تجزیئے اور سیر حاصل تبصرے شامل ہیں عتیق صدیقی نے اپنی کتاب کا انتساب اپنے مرحوم دادا محترم لالہ وزیر محمد صدیقی کے نام کیا ہے جو صحافت کی دنیا میں پشاور کا ایک بڑا نام تھا جناب عتیق صدیقی اپنے دوست مامون ایمن کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ جنہوں نے یہ کتاب مرتب کرنے کی ترغیب دلائی ‘مامون ایمن اپنے ایک خوبصورت تبصرے میں ایک جگہ لکھتے ہیں” تقویم نامی یہ کتاب ایک مخصوص عہد کی تاریخ ہے‘ بظاہر یہ ایک مخصوص عہد کی تاریخ ہے لیکن باطن میں کئی عہد‘ پوری توانائی کے ساتھ سرگرم عمل ہیں ‘کالموں کے اس خوبصورت مجموعے میں عتیق صدیقی اپنے درد وکرب کا اظہار ایک پیراگراف میں صفحہ نمبر27 پر اس طرح کرتے ہیں‘ میںنے ایک حملہ آور فوج کے ظلم و تشدد پر کبھی کذب کا ملمع کرنے کی کوشش نہیں کی پشاور شہر کی بنددکانوں کے تھڑوں پر کسمپرسی کے مارلے مظلوم بھوکے اور اپاہج افغان بچوں کو میں نے سویا ہوا دیکھا ہے اوران کی حرماں نصیبی کو شدت سے محسوس بھی کیا ہے یہ مناظر آج بھی میرے جذبہ و احساس میں بستے ہیں اگر ہم ظالم اور مظلوم کی جنگ میں کچلے ہوئے لوگوں کی داد رسی نہیں کرسکتے تو ہمارے پاس کہنے کو کچھ بھی نہیں ہے ایسے قلم اگر توڑے نہ جائیں تو خود بہ خود ٹوٹ جاتے ہیں” افغان جنگ کے بیس سال“ خوبصورت اور متاثر کن کتاب کی قیمت ایک ہزار روپے ہے ‘یہ کتاب کالج یونیورسٹی‘ سفارت خانوں ‘حکومتی لائبریریوں ہر جگہ کی زینت بننی چاہئے‘ عتیق صدیقی کو خوبصورت کتاب لکھنے پر مبارکباد پیش کرتی ہوں۔
اشتہار
مقبول خبریں
اسپین کا خوبصورت شہر سویا
آفتاب اقبال بانو
آفتاب اقبال بانو
محلہ جوگن شاہ سے کوپن ہیگن تک کی لائبریری
آفتاب اقبال بانو
آفتاب اقبال بانو
درختوں کا کرب
آفتاب اقبال بانو
آفتاب اقبال بانو
ہالینڈ کی ملکہ اور ان کی پاکستانی دوست
آفتاب اقبال بانو
آفتاب اقبال بانو