ہمارے میزبان نیویارک میں ہمارے خاندانی دوستوں میں سے تھے غالباً انہوں نے ویزا لاٹری میں امریکہ کی شہریت حاصل کی تھی ان کا فلیٹ بہت بڑا نہیں تھا نیو یارک میں رہائش بہت مہنگی تھی2000ءمیں ان کے فلیٹ کا کرایہ2000 ڈالر تھا‘ ہم ان کے گھر پہنچے تو میں نے واضح طور پر محسوس کیا کہ ان کی بیوی کو ہمارا آنا اور کچھ دن یہاں رہنے کا پلان اچھا نہیں لگا اسکا رویہ ہمارے ساتھ اچھا نہ تھا لیکن مصطفی صاحب خود جیسے جان نچھاور کر رہے تھے‘ بچوں سے پیار کررہے تھے ایک کمرہ انہوں نے ہمیںبھی دیدیا تھا ان کی ایک بیٹی ذہنی معذور تھی اور ایک کالج جانے والا بیٹا تھا ان کی معذور بیٹی بے دریغ چیخیں مارتی تھی کہ پہلی دفعہ تویہ سب سن کر میرا اور بچوں کا دل دہل گیا لیکن پھر ہم تھوڑی تھوڑی دیر بعد بلند ہونے والی ان چیخوں کے عادی ہوگئے۔ اب اسکی بیوی کی ناراضگی اور چڑاچڑاپن سمجھ آتا ہے کہ جوان بیٹی اس حالت میں ہو تو ماں کی حالت زار کیا ہوتی ہے مصطفی صاحب کے ماتھے پر شکن نہیں آئی تھی وہ نہایت بااخلاق انسان تھا اور جو اس سے ممکن ہوا اس نے ہماری خاطر مدارات میں روا رکھا۔ مصطفی صاحب کا فلیٹ نیویارک کے سب وے سٹیشن کے اوپر واقع تھا جب بھی انڈر گراﺅنڈ ٹرین گزرتی تو پورا فلیٹ اپنی پوری طاقت کے ساتھ گڑگڑاہٹ کی آوازوں سے گونج جاتا‘ یہ گڑگڑاہٹ بھی پہلے تو دل کو خوف بھرنے اور دہلا دینے کیلئے کافی تھی لیکن بعد میں اس کی عادت ہو گئی۔ مصطفی صاحب کسی کمپنی میں جاب کرتے تھے ان کا بیٹا کالج میں پڑھaتا تھا اور بیگم گھرداری کرتی تھیں انہوں نے سب وے کے ذریعے ہمیں نیویارک کی ہر جگہ گھمایا پھرایا اور کھانے بھی کھلائے‘ ان کا خلوص اور میرے بچوں کے ساتھ ان کا پیار کبھی نہیں بھولتا۔ ہم لوگ مصطفی صاحب کے چھوٹے سے لیونگ روم میں بیٹھے ہوئے تھے اور سی این این کی خبریں آ رہی تھیں ایک دم بریکنگ نیوز آنا شروع ہو گئیں ‘ یہ 2 جولائی 2000 ءکا دن تھا جے ایف کینیڈی ایئرپورٹ سے اڑنے والا فرانس کا کنکورڈ جہاز اپنی پرواز کے کچھ ہی منٹ کے بعد دلدل میں گر کر تباہ و برباد ہو گیا‘ سپر سانک کنکورڈ دنیا کا مہنگا ترین ایسا جہاز تھا جو برطانیہ اور فرانس کے تعاون سے مل کر اڑایا جاتا تھا‘ اس کا کرایہ صرف امراءہی برداشت کر سکتے تھے‘ اس کا کرایہ 9000 ڈالر فی کس تھا‘ یہ اپنی تیز رفتاری اور بہترین فلائٹ سروس کیلئے دنیا بھر کی ایئرلائنز میں پہلے نمبر پر تھا‘
بہترین پائلٹ اس کو اڑانے کی آرزو رکھتے تھے‘ جہاز کا اگلا حصہ خوبصورت لمبی ناک پر مشتمل تھا جو اس کو عام جہاز سے بہت لمبا اور یکتا بناتا تھا۔ جہاز کھڑا ہونے کے بعد اس کی لمبی ناک کو زمین کی طرف جھکا دیا جاتا تھا‘ اس کا سٹاف بہت خاص ہوتا تھا اور مسافر امیر ترین۔ کنکورڈ نے 228 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اڑان بھری اور اڑتے ہی اس کے بائیں جانب آگ لگ گئی اور وہ جہاز بائیں جانب جھکتا چلا گیا‘ پائلٹوں کی سرتوڑ کوششوں کے باوجود وہ ایئرپورٹ کے قریب ایک دلدل میں جا کر دھنس گیا‘ اس کا کچھ ملبہ زمین پر گرا جس میں آگ لگی ہوئی تھی‘ دلدل اتنی گہری تھی اور جس شدت سے وہ گرا تھا ریسکیو عملہ بے بس ہو گیا۔ کنکورڈ میں 100 مسافر تھے اور زمین
پر بھی چار لوگ اس حادثے کی زد میں آ گئے‘ کچھ پتہ نہ چل سکا کہ یہ حادثہ کیسے ہوا اور اتنا بہترین ٹیکنالوجی کے لحاظ سے کنکورڈ جہاز کن وجوہات کی بناءپر تباہ ہوا‘ اس واقعے کے بعد یہ جہاز اڑان کیلئے ہمیشہ کیلئے بند کر دیا گیا۔ مصطفی صاحب نے ٹائم سکوائر دکھانے کا پروگرام بنایا‘ نیویارک کی سب سے بہترین سیاحت کی جگہ ٹائم سکوائر ہے ہم انڈر گراﺅنڈ ٹرین سے ہی کسی گلی میں سے نکل آئے اور سامنے ہی ٹائم سکوائر تھا دنیا کا مشہور ترین سکوائر ہے نیو ایئر نائٹ مدتوں سے یہاں منائی جاتی ہے اور پورے مغرب سے یہاں لوگ جمع ہوتے ہیں۔ بے شمار عجائب گھر‘ آرٹ گیلریز‘ ہوٹلز اور ثقافتی مراکز یہاں موجود ہیں‘ سیاح طوفان کی مانند امڈ چلے آ رہے ہیں۔ نیویارک حیران کر دینی والی ریاست ہے اسکی عمارتیں اتنی بلند ہیں کہ اگر آپ اوپر عمارت کی طرف سر اٹھا کر دیکھیں تو آپ کی ٹوپی گر جائے گی اور سر بالکل کمر کی طرف جھک جائیگا۔ میں نے پہلی دفعہ میکڈونلڈ یہاں دیکھا چونکہ اس کا چکن وغیرہ
مسلمانوں کے کھانے کیلئے نہیں ہوتا لیکن ہم نے یہاں سے فرائز اور جوس پیا۔ یہیں پر ہمیں ہاکی کے مشہور کھلاڑی شہباز جونیئر کا بھائی شہزاد ملا تھا بہت ہنس مکھ سا نوجوان تھا‘ ہم نے کتنی ہی دیر واک کر کے نیویارک کی خوبصورت سڑکوں کو کنگھالا۔ اسی دن ہم نے ورلڈ ٹریڈ سنٹر بھی دیکھا‘ جی پرانا ورلڈ ٹریڈ سنٹر جو امریکہ میں تجارت و معیشت کا اہم مرکز تھا‘ بلند و بالا دو عمارتوں پر مشتمل یہ ٹریڈ سنٹر نیویارک کا مشہور ترین اور ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا تھا‘ ہم لوگ عمارتوں کے اندر تو نہیں گئے لیکن بیرون ایریا میں فوٹو گرافی کرتے رہے۔ کسی کو اس وقت معلوم نہ تھا کہ صرف دو مہینے بعد یعنی 11 ستمبر کو اس جگہ ایک ایسی آفت آنے والی ہے جو دنیا کو تہہ و بالا کر کے رکھ دے گی‘ آج بھی میرے پاس پرانے ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی عمارات اور آس پاس کی تصاویر محفوظ ہیں‘ بعد کے سالوں میں کئی مرتبہ نیویارک گئی ہوں اور نئے بنے ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی عمارات بھی دیکھی ہیں وہاں کیا کچھ تبدیل ہو چکا ہے اس کا احوال پھر کبھی بتاﺅں گی۔ ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے قریب ہی یونائیٹڈ نیشن کی بلند ترین عمارت ہے جہاں دنیا کے ہر ملک کا جھنڈا لہرا رہا ہے‘ اس عمارت کے اندر غریب ممالک کے فیصلے امیر ممالک کرتے ہیں یہاں دنیا کیلئے قوانین بنائے جاتے ہیں‘ یہاں جنگ بندیوں کے فیصلے ہوتے ہیں جن پر کبھی عمل نہیں ہوتا‘ یہاں کئی بنیادی حقوق کے فیصلوں کو سپر پاورز ویٹو کرتی ہیں یہاں تک کہ رواں سال میں اس فیصلے کو بھی ویٹو کر دیا گیا کہ ایک غریب جنگ زدہ علاقے کو پانی پہنچایا جائے‘ دل دکھانے والی باتیں ہیں۔ یونائیٹڈ نیشن کے بالکل سامنے حبیب بینک لمیٹڈ کا بورڈ لگا ہوا دیکھا تو دل خوش ہوا‘ وطن کی نسبت سے کوئی بھی بات اور کوئی بھی حوالہ دل کو اچھا لگتا ہے۔ امریکہ اتنا خوبصورت ہے کہ اس کی ہر ریاست ایک بہت بڑا ملک ہے‘ ہم غریب ممالک میں بیٹھ کر ان کی شان و شوکت‘ سہولیات‘ قوانین کی پابندی‘ شہریوں کے بے پناہ حقوق رکھنے والی ریاستیں ہم تصور میں بھی یہ باتیں نہیں لا سکتے۔ کوئی کیا کر رہا ہے‘ کس طرح جی رہا ہے‘ کیا کھا رہا ہے‘ کیا پہن رہا ہے‘ زندگی کیسے گزار رہا ہے کسی کو کوئی پرواہ نہیں‘ کوئی کسی کے ذاتی معاملات میں دخل اندازی کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ کینیڈا کی نسبت امریکہ کے عوام وسیع النظر ہیں‘ ہر بار دل سے اپنے ملک کی ترقی اور عروج کی دعائیں نکلتی تھیں۔ (خود نوشت سے اقتباس)