محلہ جوگن شاہ سے کوپن ہیگن تک کی لائبریری

 
لائبریریوں سے میرے بہت سے جذباتی اور نفسیاتی پہلو وابستہ ہیں کچھ خصوصیات انسان میں بچپن سے ہی سرائیت کرتی ہوئی پرورش کرتی ہیں کتاب سے محبت کا سفر ہرانسان کے دل میں رستے نہیں ڈھونڈتا کچھ مخصوص لوگ ہوتے ہیں جنہیں کتابیں اپنی طرف کھینچتی ہیں خصوصاً خواتین کی تعداد بہت کم ہوتی ہے جو کتابیں پڑھتی ہیں اور پھر پشاور جیسے پسماندہ اور چھوٹے شہر کی خواتین کی لائبریریوں تک رسائی کہاں ممکن تھی جی میں اپنے زمانے کی بات کر رہی ہوں ہو سکتا ہے آج کی نسل ذرا مختلف ہو اس لئے کہ انہیں ہر شے تک پہنچ کر بڑی آسانی ہے اور پشاور میں ایسی کون سی بڑی بڑی لائبریریاں ہوا کرتی تھیں جن کا تذکرہ کتابوں میں ملتا ہو میرے ہائی سکول میں کوئی لائبریری نہ تھی نہ کوئی ایسا تصور تھا نصابی کتب ہی طالبات کی زندگی کا محور ہوتی تھیں‘ کتاب سے میری محبت مجھے جوگن شاہ کے محلے کی ایک چھوٹی سی دیوار کے ساتھ لگی ہوئی ایاز لائبریری تک لے جاتی  تھی اس محلے سے گزر ماں کے ساتھ ایک ضرورت کے  تحت ہوتا تھا قدم رک جاتے تھے اور کتابیں آواز دیتی تھیں ایک درمیانے قد کا  کمزور اور سانولی رنگت کا لائبریرین کتابوں کو بڑے سلیقے سے سجاتا سنوارتا رہتا تھا بیشتر کتابیں کمزور حالت میں ہوتی تھیں‘ یہ ایک لگژری تھی اس وقت کہ کتاب خریدنا نہیں پڑتا ہے کرائے پر مل جاتی تھی صحیح طور پر یاد ہیں کہ ایک کتاب کا کرایہ چار پیسے تھا یا چار آنے تھا‘ لیکن میرے لئے یہ ایک مہنگا شوق تھا کہ میں طالبہ تھی کوئی آمدنی تو تھی نہیں نہ ماں سے فالتو میں کچھ روپے ملتے تھے ان دنوں پشاور سفید پوش گھرانوں پر مشتمل تھا بمشکل زندگی آگے بڑھتی تھی لیکن میں کتاب کا کرایہ کسی نہ کسی طرح جمع کر لیتی تھی اگر میں یہ کہوں تو غلط نہ ہوگا کہ جتنے بھی ادب کے درخشندہ ستارے ہیں ان کی کتب میں نے چھٹی ساتویں جماعت تک پڑھ لی تھیں تو غلط نہ ہوگا تمام جاسوسی ناول‘ تاریخی بھی کھنگال چکی تھی اتنی معلومات میرے ذہن و دل کو مالامال کرچکی تھیں جس کا مجھے خود بھی اندازہ نہ تھا لیکن جب لکھنے بیٹھتی تھی  تو قلم کی روانی بتاتی تھی کہ کچھ ذخیرے اندر موجود ہیں جو الفاظ کی صورت میں باہر آتے رہتے ہیں نوائے وقت پشاور میں لکھنے کا سفر میرے اسی شوق کے مرہون منت تھا ورنہ کون دسویں گیارہویں جماعت میں رنگین صفحے کی رپورٹنگ کا کام کر سکتا ہے ایڈیٹر صاحب یعنی اقبال ریاض کو میری تحریر پر اتنا بھروسہ تھا کہ وہ مجھے میرے کئے ہوئے انٹرویوز اور آرٹیکلز پر باقاعدہ معاوضہ ادا کرتے تھے کیا بھلے لوگ تھے جو اپنے اخبار‘ قارئین اور اخبار نویس کا بھلا بھی یکساں طور پر چاہتے تھے زندگی کا سفر طے کرتے کرتے میں اسلام آباد آگئی نسبتاً تعلیم یافتہ اور مالدار شہر‘ جہاں نہ صرف میرے دفتر میں خوبصورت لائبریری تھی نیشنل لائبریری اور کالج یونیورسٹی کی لائبریریاں الگ سے تھیں اس کے بعد مارکیٹوں میں خوبصورت سرورق کے ساتھ ہر قسم کی ادبی اور سیاسی کتاب شیلفوں کی زینت تھی یہاں بھی کتاب کو دیکھنے کیلئے میرے قدم رک جاتے تھے خرید کر پڑھتی تھی اور چاہے تو تحفے میں بھی کتاب ہی منتخب کرتی تھی جب تک سوتے ہوئے کتاب نہ پڑھوں جیسے کچھ نامکمل سا لگتا تھا‘ بس ایک تاریک پہلو یہ تھا کتاب پڑھنے کا کہ وہ اپنے صفحات سے بے شمار سمجھداری کی  شعاعیں آپ کے جسم میں اتارتی رہتی ہیں جس سے ناسمجھ لوگوں کے ساتھ نبردآزما ہونے سے زندگی نہایت مشکل اور دشوار ہو جاتی ہے‘ بلکہ بعض اوقات تاریک ہو جاتی ہے شاید پرانے زمانے کے لوگ اپنی عورتوں کو اس لئے قلم کتاب سے دور رکھتے تھے کہ زیادہ سمجھ بوجھ ان کے گھروں کو ویران نہ کردے میں نے انہی کتابوں کے پڑھنے کے شعور سے براڈ کاسٹنگ کے شعبے میں بے شمار سرپٹ رائٹنگ کی کامیابیاں حاصل کیں جن کو ساتھی لوگ کوئی اتنی بڑی اچھائی یا کامیابی تصور نہیں 
 کرتے تھے حالات کی ڈور کھینچتی ہوئی مجھے مغرب کے کچھ ممالک یا شہروں تک لے آئی اور میری آنکھیں خیرہ ہوگئیں میں نے ایسا ادب اور ایسا ذخیرہ کتب اپنے ملک میں نہیں دیکھا تھا میں نے سینکڑوں کتب بغیر ایک پیسہ خرچ کئے پڑھ ڈالیں‘میرا پسندیدہ موضوع بائیوگرافیز اور تاریخ ہے جو مغرب کی لائبریریوں میں لاتعداد کتب ہیں اور مہینے بھر کیلئے ایشو ہو جاتی ہیں‘ ٹیلی فون پر ان کو بے شک تاریخ بڑھواتے رہیں لیکن یہ پیاس بڑھتی رہتی ہے آپ کے اندر بلب جلتے جاتے ہیں روشنیاں ہوتی رہتی ہیں اور آپ پڑھتے رہتے ہیں دوسروں کی زندگیاں اور ان کی انتھک جدوجہد کی کہانیاں پڑھ کر اپنا آپ چھوٹا لگتا ہے‘ ہم نے تو زندگی میں کچھ کیا ہی نہیں جو ہم سے پہلے لوگ کر چکے ہیں‘18ویں انیسویں صدی کے لوگوں نے جو جو ادب تخلیق کیا جیسی سیاست کی جو انسائیکلوپیڈیا اور ڈکشنریز تخلیق کیں اب آج کا طالب علم اسکا ذرا بھر بھی اندازہ نہیں کر سکتا کتاب خود بولتی ہے کہ مجھے کن نایاب لوگوں نے تخلیق کیا‘عمرے کے ایک سفر کے دوران ایمسٹرڈم(ہالینڈ) کے ایک ٹرانزٹ میں سفری لائبریریز دیکھ کر ایک دفعہ پھر میں حیرت زدہ رہ گئی‘ ایسی لائبریریاں جہاں کوئی لائبریرین نہیں درجنوں بہترین کتب الماریوں 
 میں موجود ہیں کوئی لاک نہیں ہے آپ الماری کھولیں پسندیدہ کتاب نکالیں اور اپنے وقت کو قیمتی بنالیں‘ ہاں البتہ ایک رجسٹر پڑا ہے جس میں آپ چاہے تو اپنے تاثرات اس سفری لائبریری  کے بارے میں قلم بند کریں یا نہ کریں آپ کی اپنی مرضی ہے بھلا ایسا کیسے ہو سکتا  ہے کہ میں اپنے تاثرات اس بیش قیمت آئیڈیا کیلئے نہ لکھتی‘ کینیڈا کی لائبریریوں کیلئے میرے پاس شکر ہے کہ ڈھیروں ڈھیر الفاظ ہیں جن سے کتابیں لے کر نہ صرف میں نے اپنے مشکل اور بدترین دنوں میں کچھ مصروفیت حاصل کی بہت سے صبرو تحمل کے اسباق بھی سیکھے‘ لائبریریوں کو کھنگاتے کھنگاتے مجھے ایک ایسی لائبریری کے بارے میں معلوم ہوا جس کا نام انسانی لائبریری  ہے زمانہ ترقی کرگیا ہے پہلے انسان کتابیں ایشو کرواتے تھے‘اب انسان انسانوں سے خود آمنے سامنے بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں‘ ان کی زندگی کی کہانی سنتے ہیں روایات ثقافت رسم و رواج باتیں کرتے ہیں‘ان کی زندگی کی کہانی سنتے ہیں  روایات  ثقافت رسم ورواج پر تفصیل سے باتیں کرتے ہیں یہ آئیڈیا ڈنمارک کے شہر کوپن ہیگن کے رونی ابارجل کو2000 سن میں آیا کیوں نہ انسانوں سے بات کی جائے‘ شیلفوں  میں کتابیں سجانے کی بجائے لائبریری  گارڈن  بنایا جائے رضا کارانہ طورپر لوگ لائے جائیں جو نہ صرف اپنی زندگی کے کچھ پہلو دوسرے لوگوں کے سامنے رکھیں ان کے مشکل سوالات کا جواب بھی دیں ان کی زندگی سے کچھ اچھا سبق بھی سیکھیں دیکھتے ہی دیکھتے انسانی لائبریری  اس حد تک مقبول ہوئی کہ اب اس کی برانچز80 ممالک تک پھیل چکی ہیں موسم بہار اور موسم خزاں اس لائبریری  کے استعمال کے مہینے ہیں اب تک سینکڑوں لوگ اس لائبریری  میں کہانی زندگی کی صورت میں پڑھ چکے ہیں اس کی مقبولیت اس حد تک ہے کہ کئی سال بعد تک  کی بکنگ یہاں ہو چکی ہے یہ انسانی کتابیں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے ذریعے تقسیم درتقسیم ہوتی رہتی ہیں ڈینیشن اور انگریزی اس لائبریری کی اصل زبانیں ہیں لیکن باقی ممالک کے لوگ اپنے لئے مترجم کا استعمال کرتے ہیں اس طرح زبان کی ناواقفیت کی قید سے بھی یہ لائبریری آزاد ہو جاتی ہے مجھے یاد ہے میں نے کئی سال پہلے ایسا ایک آئیڈیا ہندکووان کے ایک ادارے کو مفت میں دیا تھاکہ جس تیزی سے ہندکو زبان اپنا وجود کھو رہی ہے اس کی تہذیب  و ثقافت کے وہ امین جو اپنی عمریں گزار کر اخیر سفر تک آچکے ہیں ان سے باتیں کرکے ایک پوری سیریز بنائی جائے جس میں وہ اپنے اپنے وقت کی روایات کے حالات واقعات بیان کریں  جو ہندکو بولنے والوں کا اثاثہ تھے جو‘ اب ان کے ساتھ ہی منوں مٹی تلے کھو چکا ہے‘ لائبریریوں تک رسائی کا میرا سفر آج بھی جاری ہے۔