ہالینڈ کی ملکہ اور ان کی پاکستانی دوست

کوئین آف ہالینڈ ہیلینا پولین ماریہ اگست 1880ء میں پیدا ہوئیں‘ وہ شاہ ولیم سوئم آف ہالینڈ کی اکلوتی بیٹی تھیں‘ 10 سال کی تھیں کہ بادشاہ کی وفات ہوئی اور وہ 10 سال کی عمر میں تاج و تخت کی وارث قرار پائیں‘ وہ 1962ء تک حیات رہیں‘ اس دوران انہوں نے جنگ عظیم اول‘ جنگ عظیم دوئم بھی اپنے سامنے ہوتے دیکھیں‘ ہالینڈ کا سب سے بڑا بحران جو معاشی تھا وہ کبھی ان ہی کی بادشاہیت کے دوران ہوا‘ ہالینڈ کی عوام اس کو بہت چاہتی تھی‘ وہ ہالینڈ میں انڈسٹریل انقلاب برپا کرنے والی پہلی خاتون ملکہ تھیں اور انگلینڈ کے بعد دنیا میں سب سے زیادہ عمر تک بادشاہت کرنے والی دوسری ملکہ تھیں‘ ان کی بادشاہت کی عمر 58برس تھی اگرچہ اس نے اپنی اکلوتی بیٹی جولیانہ کے حق میں تخت سے دستبرداری اختیار کی لیکن بیٹی کے ہی پرزور اصرار پر دوبارہ تاج و تخت سنبھالا۔ 1895ء میں کوئین آف ہالینڈ نے انگلینڈ کا دورہ کیا‘ ملکہ وکٹوریہ کا دور تھا‘ وہ اپنی یادداشتوں میں ہیلینا پولین ماریہ کے بارے میں لکھتی ہیں ”وہ اپنے بال ابھی بھی کھلے رکھتی ہے‘ وہ بہت نرم خو اور گریس فل ہے اور چہرے سے نہایت ذہین لگتی ہے‘ وہ خوبصورت عورت ہے اور انگلش بہت اچھی بولتی ہے اور بہت ادب آداب کی مالک ہے۔“ اور یہ سچ ہے کہ ہیلینا کوئین نہایت ہی خود اعتماد اور بہادر عورت تھی اور بے انتہا ذہنی استعداد کی مالک تھی۔ جنگ عظیم دوئم میں وہ انگلینڈ چلی گئی تھی اور رات کے آخری پہر ہالینڈ کے لوگوں سے ریڈیو کے ذریعے خطاب کرتی تھی‘ اس کی تقاریر عوام کیلئے ہالینڈ میں نہایت مقبول تھیں‘ لوگ رات رات بھر جاگ کر ان کا خطاب سنا کرتے تھے‘ کوئین آف ہالینڈ کی پاکستانی دوست کون تھیں‘ ہمارے سب سے پہلے وزیراعظم محترم لیاقت علی خان کی بیگم رعنا لیاقت علی خان کوئین آف ہالینڈ کی دوست تھیں‘ بیگم رعنا لیاقت علی خان ہندوستان کے شہر المورہ میں پیدا ہوئی تھیں‘ انہوں نے لکھنؤ یونیورسٹی سے اکنامکس میں ایم اے کیا تھا‘ اسی یونیورسٹی میں وہ لیاقت علی خان سے ملی تھیں اور ان کی شخصیت کی گرویدہ ہو گئی تھیں‘ لیاقت علی خان وکیل تھے‘ انہوں نے 1933ء میں لیاقت علی خان سے شادی کر لی تھی‘ لیاقت علی خان قائد اعظم محمد علی جناح کے ساتھ تحریک پاکستان کے سرگرم رکن تھے‘ آپ نواب خاندان سے تعلق رکھتے تھے‘ بیگم رعنا لیاقت علی خان بھی ان کے شانہ بشانہ پاکستان کی تحریک کیلئے سرگرم رہیں‘ بیگم رعنا لیاقت علی خان نے 1952ء میں آل پاکستان ویمن ایسوسی ایشن بنائی اور اقوام متحدہ میں شمولیت کیلئے خواتین کا وفد تشکیل دیا‘ پاکستان بننے کے بعد جب لیاقت علی خان ملک کے پہلے وزیراعظم بنے تو بیگم رعنا لیاقت علی خان کی بھی ملک کو ترقی پر گامزن کرنے کی کوششیں تیز ہو گئیں‘ پاکستان انٹرنیشنل ویمن 
کلب کی تشکیل دی جو مہاجرین خواتین کیلئے دن رات کام کرتی تھیں‘ انہوں نے پاکستانی فیڈریشن آف یونیورسٹی کی بنیاد رکھی۔ پاکستان نرسز ایسوسی ایشن کی دیکھ بھال بھی اپنے ہاتھ میں رکھی تاکہ پورے ملک کی خواتین کی صحت کے معاملات کو خود اپنی نگرانی میں رکھیں‘ وہ کتنے عرصے تک ویمن نیشنل گارڈ کی بریگیڈیئر بھی رہیں‘ وہ ایک مشہور صحافی بھی تھیں ان کے مضامین پاکستانی اور انٹرنیشنل جریدوں و اخبارات میں چھپتے تھے‘ ان کو اقوام متحدہ کی طرف سے انسانی حقوق کا ایوارڈ بھی عطاء ہوا۔ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد بھی انہوں نے پاکستان کی ترقی کیلئے اپنی سرگرمیاں ترک نہیں کیں اور اپنے شوہر کے ہی نقش قدم پر گامزن رہیں‘ وہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں سندھ کی گورنر بھی رہیں‘ اٹلی‘ کورینیا اور ہالینڈ میں سفارتکاری کے فرائض سرانجام دیئے‘ جب وہ 1954ء میں ہالینڈ کی سفیر بنیں تو ملکہ ہالینڈ کی 
سفیر بنیں تو ملکہ ہالینڈ سے اس کا بہت خوبصورت رشتہ بن گیا‘ وہ دونوں اپنے فارغ وقت میں ایک دوسرے سے ملاقات کرتیں اور شطرنج کھیلتی تھیں‘ ملکہ ہالینڈ ان کی خداداد صلاحیتوں کی معترف تھیں‘ ہالینڈ میں آج بھی ہمارے پاکستانی سفارتخانے کی عمارت کے ساتھ ایک کہانی جڑی ہوئی ہے کہ کوئین آف ہالینڈ نے ایک دن بیگم رعنا لیاقت علی خان کی سفارتکاری کے عرصے کے دوران حسب معمول شطرنج کا کھیل شروع کیا تو ملکہ نے شرط لگائی کہ آج اگر آپ نے مجھے شطرنج کے کھیل میں شکست دے دی تو میں آپ کو اپنا ایک قلعہ تحفے میں دوں گی‘ دونوں ہی اس کھیل کی ماہر تھیں اور پھر ملکہ ہالینڈ کو اس شطرنج کے خاص کھیل میں شکست ہوئی جس میں شرط لگائی گئی تھی اور ملکہ ہالینڈ نے اپنے وعدے کے مطابق بیگم رعنا لیاقت علی خان کو اپنا قلعہ تحفے میں دے دیا‘ رعنا لیاقت علی خان نے اپنی مدت سفارتکاری ہالینڈ میں مکمل کی اور واپس پاکستان کا سفر کرنے سے پہلے اپنے تحفے میں ملا ہوا قلعہ پاکستان کو ہمیشہ کیلئے سفارتخانے کی عمارت کیلئے تحفتاً دے دیا۔ آج بھی اس قلعے کی عمارت ہالینڈ کے شہر ہیگ میں موجود ہے اور اس پر پاکستانی پرچم لہرا رہا ہے‘ پاکستان کو بنے ہوئے 77 سال ہو گئے 
ہیں اور بیگم رعنا لیاقت علی خان کو بھی یہ عمارت تحفہ کئے ہوئے 60 سال ہو گئے ہیں لیکن ان کی یہ یادگار ہمیشہ ان کی شطرنج کی کہانی اور سفارتخانے کی عمارت کی صورت میں زندہ و جاوید بن کر رہ گئی ہے۔ بیگم رعنا لیاقت علی خان کے دو بیٹے تھے لیکن میں نے کم از کم ان کو کبھی سیاستدان کے طور پر نہیں سنا یقینا وہ حیات ہوں گے‘ ان کے ماں اور باپ دونوں ہی پاکستان کے عظیم لوگوں میں شمار ہوتے ہیں ان دو عظیم رہنماؤں کی زندگی کی کہانی ہندوستان کے شہر المورہ سے شروع ہوئی اور پاکستان کے شہر کراچی میں ختم ہوئیں وہ تاعمر کراچی میں مقیم رہیں اور کراچی میں ہی جون 1990ء میں انتقال کر گئیں‘ اللہ پاک مغفرت کرے (آمین) کیسے کیسے لوگ پاکستان کی مٹی میں سوئے ہوئے ہیں جنہوں نے پاکستان کو سربلند کرنے کیلئے اپنے شب و روز تیاگ دیئے‘ غالب نے انہی لوگوں کیلئے کہا تھا ”مقدور ہو تو خاک سے پوچھو کہ اے لیئم ……تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کئے“ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان اپنے وجود میں آنے کے بعد ایک ایسا ملک تھا جس کے تمام تر وسائل ہندوستان میں ہی رہ گئے تھے لیکن اسلام کے نام پر بننے والے اس ملک کو حاصل کرنے والے بہت ہی مخلص اور دیانتدار تھے‘ انہوں نے پاکستان کو سربلند کرنے کیلئے بڑی قربانیاں دیں‘ اداروں کو انتہائی دیانتداری سے آگے بڑھنے دیا‘ قائداعظم محمد علی جناح تو 1948ء میں فوت ہو گئے تھے لیکن جن لوگوں کے ہاتھوں میں ملک کی باگ ڈور تھی انہوں نے پاکستان پر اپنی محبتوں کو لٹانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی خواہ وہ خواتین تھیں یا مرد حضرات انہوں نے پاکستان کے پرچم کو اپنے ہاتھوں سے تھامے رکھا آج تک یہ پرچم سربلند ہے‘ آئندہ بھی سربلند رہے گا۔ بیگم رعنا لیاقت علی خا کے ساتھ ساتھ ایک لمبی فہرست ہے ان باکمال لوگوں کی جنہوں نے پاکستان کو صحیح طریقے سے اپنا وطن مانا اور اس کی عظمت و شان قائم رکھنے کیلئے دن رات جدوجہد کی‘ وہ اپنی دولت دنیا گھر بار جاگیریں‘ بنگلے‘ محلات ہندوستان میں چھوڑ آئے تھے پاکستان میں ان کی زندگی شان و شوکت والی نہیں رہی تھی لیکن انہوں نے نہ کبھی شکوہ کیا اور نہ حکومتی مراعات لینے کی کوشش کی بلکہ سادہ زندگی بسر کرنے کو ترجیح دی اور جو صلاحیتیں بھی قائداعظم کے ان ساتھیوں اور سپاہیوں کی تھیں انہوں نے اس میں کوئی بخل نہیں کیا‘ اپنے عزیز وطن کی سربلندی کیلئے سرشار ہوئے‘ وطن کی عظمت کے گیت لکھے‘ بیرونی دنیا میں پاکستان کا نام روشن کیا اور مرتے ہوئے اپنا سارا سرمایہ وطن کے نام کر دیا‘ ان کے ہاتھوں سے سربلندی کا یہ علم اگلی نسلیں سنبھالتی گئیں اور یوں پاکستان آگے ہی آگے بڑھتا گیا‘ اللہ پاک ان سب کو غریق رحمت کرے اور ہمیں توفیق دے کہ ہم پاکستان کو عظمت کے آخری نشان تک لے کر جائیں۔