یہ کینیڈا تو نہیں ہے

 مغربی ممالک آج کل برف کے موسم کی زد میں ہیں‘ کینیڈا بھی دنیا کے سرد ترین ملکوں میں شمار ہوتا ہے‘ بحر اوقیانوس کے کنارے بسنے والا یہ ملک دسمبر‘ جنوری‘ فروری‘ مارچ میں آسمان سے برف برسانے والا ٹھنڈا برف ملک ہے۔ تیس چالیس سال پہلے تو یہ برف ستمبر کے مہینے میں برسنا شروع ہو جاتی تھی‘ درجہ حرارت منفی 60/ منفی 70 درجے تک ہوتا تھا‘ امیگریشن لینے والوں کو تاکید کی جاتی تھی کہ اگر وہ گرم ترین کپڑے پہن کر باہر نہیں نکلیں گے تو ان کا جسم منجمد ہو سکتا ہے۔ پچھلے بیس سال سے کینیڈا نے جس بے ہنگم طریقے سے امیگریشن کھولی ہے اور دنیا کے لاکھوں لوگ جس طرح یہاں آ کر بسنا شروع ہوئے ہیں کینیڈا کی سردیوں سے لے کر بہت کچھ تبدیل ہونا شروع ہو گیا ہے۔ ملک میں نئے آنے والوں کے لئے سب سے پہلی ضرورت ایک چھت ہوتی ہے‘ اس چھت کو مہیا کرنے کے لئے جس طرح جنگلوں اور سرسبز گھنے باغات کو بے دردی سے کاٹا گیا ہے شاید ہی کسی ترقی یافتہ ملک میں اس کی مثال ملتی ہو‘ انتاریو میں ہائی رائز عمارات کے علاوہ طویل و عریض قطاریں ان ڈبہ نما گھروں کی ہیں جن کو مہذب زبان میں سٹوڈیو اپارٹمنٹ‘ ٹاؤن ہاؤس کہا جاتا ہے‘ ان کی قیمتیں اگر کرایوں کی مد میں دیکھیں تو ہمارے پاکستان کے مطابق 8 سے 10 لاکھ روپے مہینہ ہے اور اگر خریدنے کی بات کریں تو 7 کروڑ سے 20‘ 30‘ 40 کروڑ تک ہیں۔ خریدنے کے لئے کچھ ایک ڈیڑھ کروڑ کے لگ بھگ بینک کو بیعانہ دے دیا جاتا ہے اور پھر بینک کے ساتھ آپ کا سود کا ایک گہرا رشتہ قائم ہو جاتا ہے سال کے آخر میں معلوم پڑتا ہے کہ اصل زر میں 400 ڈالر ہی گئے ہیں‘ لاکھوں روپے تو بینک نے سود لے لیا ہے اور یہ سلسلہ بڑھاپے تک چلتا رہتا ہے‘ اسی طرح کریڈٹ کارڈز‘ انشورنس‘ گاڑی اور تمام اخراجات آپ کو آرام کی نیند سونے نہیں دیتے‘ جو لوگ یہ خیال رکھتے ہیں کہ ڈالر کمانا آسان ہے وہ جان لیں کہ لوہے کے چنے والا محاورہ بھی اس کے سامنے ہیچ ہے۔ تعلیم مفت دے دینے کے بعد کینیڈا کی حکومت امیگرنٹس کو بھول جاتی ہے۔ حالیہ سروے کے مطابق 5 امیگرینٹس میں ایک دو فوری طور پر اپنے وطن واپسی کی راہ لیتے ہیں۔ کئی سال پہلے میں نے ایک ریسرچ پیپر تیار کیا تھا جس کے مطابق صرف ٹورنٹوکے ایک علاقے میں 10 لاکھ لوگ فوڈ بینک سے کھانا لیتے تھے‘ آج کل یہ تعداد ہر علاقے میں لاکھوں تک پہچ گئی ہے‘ فوڈ بینک کے اشتہارات اور التجائیں ہر سو نظر آتی ہیں کہ ان کو صاحب حیثیت لوگ کھانے کی مد میں خشک اشیاء 
عطیہ کریں‘ میری ای میل میں ایسی کئی میلز آتی ہیں جس میں مسلم آرگنائزیشنز کینیڈا میں رہنے والے مسلمانوں کے لئے حلال کھانے کی اشیاء کے مطالبات کرتے ہیں‘ جمعے کی نماز کے بعد ہر مسجد میں یہ اعلانات کرتی ہے کہ وہ حلال کھانا مسلمان فوڈ بینکوں میں پہنچائیں۔ کووڈ کی بیماری کے بعد دنیا کو مہنگائی اور معیشت کی کمزوری نے ایسا شکنجہ دیا ہے کہ امیر غریب ہر کوئی اس سے متاثر ہوا ہے‘ غریب لوگ تو اپنی بنیادی ضروریات ہی اٹھا سکتے ہیں‘امیر بھی اپنے ٹھاٹ باٹ کم کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں‘ آبادیوں کے بے تحاشا دباؤ سے ہمیشہ ملکوں کے موسموں پر ہوتا ہے یہاں کینیڈا میں بھی یہی حال ہے گرمیاں سخت گرم ہو گئی ہیں اور سردیاں سکڑ کر محدود مہینوں تک ہی مخصوص ہو گئی ہیں‘ ستمبر میں پڑنے والی برف اب تین مہینے خاموش رہتی ہے دسمبر کے مہینے میں سردی کی ہوا چلنے لگتی ہے کسی کسی سال تو دسمبر بھی سفید نہیں ہوتا اور کرسمس منانے والے سفید کرسمس سے محروم رہتے ہیں اس دفعہ دسمبر کے آغاز میں ہی برف باری کاایک سلسلہ شروع ہو کر موسم مدہم ہو گیا ہے امید ہے اس مہینے اور بھی برف پڑے گی برف 30 سنٹی میٹر تک بعض علاقوں میں پڑی کہ میرے چھوٹے بچوں نے برف کا پہاڑ بنا کر مجھے سالگرہ کا تحفہ برتھ ڈے ماؤنٹین کی صور ت میں دیا اسکی تصویریں بنائیں اور خوش ہوتے رہے جسٹس ٹروڈو نے بعض ممالک کی بے تحاشا آبادی کو کھلی امیگریشن دی اس میں مسلمان ممالک نہیں آتے انڈیا‘ یوکرائن یورپ کے علاقے خاص طور پر ہندوستان سے لاکھوں ایسے طلباء و طالبات کالج یونیورسٹیوں میں داخلہ لے کر آتے جو بعد میں کالج یونیورسٹی سے غائب ہو گئے انٹرنیشنل تعلیم یہاں بہت مہنگی ہے ہاسٹل کے ساتھ کوئی بھی طالب علم اس کو برداشت نہیں کر سکتا‘یہاں پہلے سے موجود ان کے دوست رشتہ داروں نے ان کو اپنے گھروں میں ایسے ایڈجسٹ کیا کہ مڈل ایسٹ کی طرح ایک ایک کمرے میں کئی کئی لڑکے یا طالبات رہنے لگ گئیں اور ان کی اولین کوشش
 یہی ہونے لگی کہ کوئی بھی کیش نوکری مل جائے کہ ڈالر کمانا شروع کر دیں‘اگر چہ سخت جرمانے ہیں ان کمپنیوں اورکارباریوں پر جو غیر قانونی تارکین وطن کونوکری نہیں دے سکتے لیکن جب آبادی کا بڑا حصہ ہی پردیسیوں پر مشتمل ہو تو وہ اپنے دوستوں رشتہ داروں کی مدد کرنے کو تیار ہوتے ہیں امیگریشن کے نام پر کریمینل عناصر بھی آگئے ہیں جن کی تعداد بھی کسی طرح ہزاروں لاکھوں سے کم نہیں گاڑیاں چرانا ڈاکے ڈالنا معمول کی باتیں ہو گئی ہیں‘ پولیس کا آرڈر ہے کہ کوئی آپ کے دروازے توڑ کر گاڑی کی چابی لینے آجاتا ہے تو آپ اس کو فوراً دے دیں اپنی جان کو خطرے میں نہ ڈالیں سی سی ٹی وی کیمرے صاف بتاتے ہیں کہ جرم کون کر رہا ہے لیکن پکڑنا مشکل ہے آج سے 30/25 سال پہلے کینیڈا ایسا نہیں تھا اس لئے میں تو عام طورپر یہ کہہ دیتی ہوں کہ یہ کینیڈا تو نہیں ہے لیکن بہرحال قانون سخت ہے رات دن شہریوں کی حفاظت کیلئے کام ہوتا ہے مجرم پکڑا جائے تو سزائیں سخت ہیں‘25 سال پہلے  میں اپنے گھر کو لاک کئے بغیر ہی چلی جاتی تھی اور یہاں رواج ہی یہی تھا لیکن اب ترقی پذیر ممالک کی طرح ہی تین تین لاک لگانے کے بعد آپ مطمئن نہیں ہوتے‘ بہرحال یہی زندگی ہے‘ لیکن صفائی ستھرائی بہت زیادہ ہے‘ تعلیم بہت اچھی ہے‘ البتہ سڑکیں لاکھوں امیگرنٹس کی وجہ سے لاکھوں ہزاروں گاڑیوں سے بھر گئی ہیں یہاں پیدل سفر ہو ہی نہیں سکتا‘ گاڑی رکھنا ضروری ہے آپ کی ہر ایک منزل آپ سے گھنٹے دو گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے بعض اوقات تو میں کہہ دیتی ہوں کہ اسلام آباد سے پشاور تک کا راستہ ہے سکول دور ہیں سودا سلف‘ مارکیٹ‘ کپڑا خریدنا‘ نوکری کرنے کی جگہ‘ تو گاڑی رکھنابے انتہا ضروری ہے‘ بلکہ گھر میں جتنے افراد ہیں ہر ایک کے پاس ان کی نوکری کی ضرورت کے لئے گاڑی رکھنا ضروری ہو جاتا ہے ورنہ ٹرانزٹ بسیں موجود ہیں جو دن رات چل کر مستحق لوگوں کی آمدورفت کی ضرورت کو پورا کرتی ہیں‘ان کا کرایہ مناسب ہوتا ہے ان کے آنے جانے کے اوقات اتنے مکمل ہوتے ہیں کہ آپ اپنی گھڑیاں ملالیں انسان کسی حال میں خوش نہیں ہوتا یہ وہ سبق تھا جو دسویں جماعت کے اردو کے نصاب میں پڑھا کرتے تھے‘ شاید آج بھی طلباء و طالبات یہ سبق پڑھتے ہوں تو انسان ترقی پذیر ملک میں ہو یا پھر ترقی یافتہ ملک میں کچھ نہ کچھ بات دکھ سکھ کی اس کی زندگی کے حساب کے مطابق اس کے ساتھ چپکی رہتی ہے ایک وقت ایسا آجاتا ہے کہ انسان ان سب کا عادی ہو جاتا ہے۔