دریائے سندھ: ایک جائزہ

ابا عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں باپ اور سین پشتو کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں دریا تو اباسین کا مطلب ہوا دریاؤں کا باپ یعنی بڑا دریا‘ دریائے سندھ کے اور بھی کئی مقامی نام ہیں اٹک، نیلاب، کالا باغ اوراسی طرح کے کئی دوسرے‘ ماضی میں اس کو سندھ یاسندھو بھی کہا گیا ہے جو سنسکرت زبان کا لفظ ہے، یہ دریا شمال سے جنوب کی جانب پاکستان کے صوبے پختونخوا سے ہوتا ہوا پنجاب اور سندھ کے راستے سمندر تک پہنچتا ہے بہت پرانی بات ہے جب ہندوستان کا کچھ علاقہ ایران کے زیر تسلط رہا تو پرانی کتابوں میں اس دریا کو آبی سندھ لکھا گیا‘سکندراعظم کے مورخین نے اس کو سنتھس اور انڈوس کے نام سے یاد کیا بعد میں یہ انگریزی میں ڈھل کرINDUS بن گیا‘ چینیوں نے اپنی کتابوں میں اس کا ذکر سنٹوSINTOW کے نام سے کیا‘رومن حکمرانوں نے اس کو سندسSindusکے نام سے یاد کیا ہے اگر غور کیا جائے تو ان تمام ناموں میں پشتو کا لفظ سین یا سیند کسی نہ کسی طور پر موجود ہے یوں پشتونوں کا تعلق اس دریا کے ساتھ بہت پرانا لگتا ہے‘ پشتو کے قدیم اور جدید ادب کی مختلف اصناف میں اس کا بہت تذکرہ کیا گیا ہے ایک صنف ٹپہ جس کی تخلیق کا سہرا عموماً خواتین کے سر ہے‘ معلوم ہوا ہے کہ اس دریا کے کنارے پانچ چھ ہزار سال قبل بڑی تہذیب یافتہ قوم یا قومیں آباد تھیں مگر ان کے مذہب، زبان اور نسل کے بارے میں کوئی واضح معلومات نہیں ہیں‘ تبت جس کو دنیا کی چھت بھی کہا گیا ہے سے یہ دریا نکلتا ہے اس کا سرچشمہ ایک تالاب یا جھیل ہے جس کا نام مانسرور ہے جو سطح سمندر سے 18 ہزار فٹ اونچی ہے‘منبع سے سمندر تک کا فاصلہ 3186کلو میٹر یعنی 1980 میل ہے یہ دریا ہمالیہ اور قراقرم سے ہوتا ہوا میدانی علاقوں میں داخل ہوتا ہے ہمالیہ اور قراقرم کے دریائے زاسکر، شویوک، شگار، ہنزہ، گلگت اور استور اس کا حصہ بنتے ہیں کوہ ہندوکش اور کوہ سلیمان سے دریائے لنڈے (جو دریائے سوات، پنجکوڑہ، چترال اور کابل کا مجموعہ ہے) دریائے کرم اور ٹوچی وغیرہ پنجاب کی طرف سے جہلم، چناب اور بھارت کی جانب سے راوی، بیاض اور ستلج اس میں شامل ہوتے ہیں‘ اباسین کے کنارے خیبرپختونخوا کے علاقے میں صوابی کے قریب ہنڈ کے نام سے ایک شہر آباد تھا جو ہندو شاہیہ حکومت کا پایہ تخت تھا مگر لگتا یہ ہے کہ دریا نے کئی بار اس شہر کو غرق کیا ہے‘ ہنڈ کے قریب ایک اور تاریخی مقام جس کو لاہور کہا جاتا ہے یہاں پر سنکسرت زبان کا پہلا ماہر لسانیات پانینی پیدا ہوا تھا‘1000میں جب محمود غزنوی نے جے پال کو اور ان کے بیٹے انندپال کو پے درپے شکست دی تو یہ علاقہ مسلمانوں کے قبضے میں آگیا جس کے بعد محمود نے 1026میں سندھ کو بھی فتح کرکے اپنی حکومت میں شامل کر لیا‘ اٹک کے مقام پر جلال الدین اکبر کا تعمیر کردہ قلعہ قابل دید ہے جبکہ انگریز دور حکومت نے 1883ء میں ایک تاریخی پل تعمیر کیا
 ہے جس پر بیک وقت ریل گاڑی اور بسوں کی گزر گاہ بنائی گئی ہے اب بھی وہ پل موجود ہے‘ صوابی کے قریب تربیلہ کے مقام پر پاکستان نے کچی مٹی کا دنیا کا سب سے بڑا ڈیم تعمیر کیا ہے‘ اس کا تالاب  101ملین ایکڑ اراضی پر پھیلا ہوا ہے اس کی اونچائی 445 فٹ اور لمبائی 9200 فٹ ہے۔ دریائے اباسین ہندوستان اور پاکستان کا سب سے لمبا دریا ہے ایشیا میں دسویں نمبر پر اور دنیا میں 22 ویں نمبر پر ہے دریائے اباسین پاکستان میں صرف لمبائی کی وجہ سے مشہور نہیں ہے مذکورہ وجوہات کے علاوہ وہ ہر سال پاکستان کی زمینوں کو اپنے تیز اور طرار پانی کے ریلوں کے ذریعے ڈھیروں قدرتی کھاد فراہم کرتا ہے یہ دریا سال بھر اتنا پانی خارج کرتا ہے جو دنیا کا کوئی بھی دریا نہیں کرتا‘ ماہرین کا اندازہ ہے کہ اباسین ہر سال دو کھرب 74 ارب پانچ کروڑ اور 50 لاکھ مربع گز پانی خارج کرتا ہے۔ اس کے علاوہ اس دریا کے دونوں کناروں 
 پر آباد پرانی تہذیبوں کے آثار زیادہ تر 1992ء میں دریافت ہوئے جس سے معلوم ہوا ہے کہ یہ بہت ترقی یافتہ لوگ تھے اس کو ”وادی سندھ کی پرانی تہذیب“ کا نام دیا گیا ہے صوبہ سندھ کے ضلع لاڑکانہ میں ڈوگری ریلوے سٹیشن کے قرب وجوار میں ایک ٹیلے کی کھدائی میں قدیم آثار برآمد ہوئے ہیں ماہرین نے ان کو چار پانچ ہزار سال پہلے کا بتایا ہے ان کھنڈرات کی آبادی کی خاص بات یہ ہے کہ چھوٹی چھوٹی پکی اینٹوں سے اس کی تعمیر ہوئی ہے‘گلیاں سیدھی اور پکی ہیں اور صفائی کا انتظام بھی عمدہ ہے‘ وہاں سے برآمد ہونے والے آثار کو موہنجو داڑو کے عجائب گھر میں محفوظ کیا گیا ہے اس شہر کو اب لوگ موہنجوداڑو کے نام سے جانتے ہیں۔ خیبرپختونخوا کے علاقے میں بھی گندھارا تہذیب اور بدھ مت کے آثار کی بہتات ہے جو خصوصی طور پر قیام پاکستان کے بعد نمایاں ہوئے ٹیکسلا بھی قابل دید ہے‘ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اباسین صرف ایک دریا کا نام نہیں ہے یہ ایک تہذیب ہے کسی زمانے میں پورا علاقہ اس کے نام سے مشہور رہا اگر غور کیا جائے تو آج کا پاکستان ماضی کی وادی سندھ ہے‘اباسین کا پانی تیز، ٹھنڈا اور میٹھا ہے اس کو پینے اور آبپاشی کے لئے استعمال کیا جاتا ہے اس میں آنے والے سیلاب گاؤں کے گاؤں اور لہلہاتی فصلوں کو بہا کر لے جاتے ہیں مگر پنجاب کی زمینوں کو قدرتی کھاد فراہم کرکے سرسبز وشاداب بناتا ہے اس کی ریت میں سونے کے ذرات کی کثرت ہوتی ہے ریت سے سونا الگ کرنا ایک ہنر ہے جس کے ماہرین کم ہیں اس کے علاوہ اس کے کناروں پر بسنے والوں میں سے بے شمار لوگوں کی گزر بسر اس سے پکڑی جانے والی مچھلی پر ہے‘ اس دریا سے آبپاشی کے لئے کئی نہریں نکالی گئی ہیں سکھر بیراج، جناح بیراج، تونسہ بیراج، گدو بیراج، کوٹری بیراج، چشمہ بیراج اور تربیلا ڈیم بجلی اور آبپاشی کی ضرورتوں کو خاطر خواہ پورا کرتے ہیں۔ اباسین جتنا پھیلا ہوا اور طویل ہے اس کے بارے میں لکھنے میں بھی لمبائی اور طوالت کی ضرورت ہے مگر لوگ سمندر کو کوزے میں بند کرنا جانتے ہیں میں نے اباسین کو کوزے میں بدن کرنے کی ایک ناکام کوشش ضرورکی ہے۔