ہسپانیہ میں مسلمانوں کی آٹھ صدیوں پر محیط حکمرانی کے بہت سارے انمٹ نقوش پائے جاتے ہیں ان میں الحمرا ء کے محل کے بعد قر طبہ کی مسجد سب سے نما یاں ہے ہم نے قر طبہ شہر میں داخل ہو کر مر کزی مقام کا انتخا ب کیا مسجد قر طبہ کے بارے میں پو چھا تو بتا یا گیا کہ اس کا نا م موزکیتا کیتھڈ رل ہے اور دو گلیاں چھوڑ کر تیسری گلی میں اس کا مینار نظر آتا ہے ہم نے مینا ر کا تعا قب کیا اور مینار والی گلی میں پہنچ کر حیرت اور تعجب میں پڑ گئے بیرونی دیواروں کا حسن،اونچے اونچے دروازوں کا دبدبہ اور مینار کی عظمت نے آنکھوں کو خیرہ کر دیا مختصر سائن بورڈ پر مو ز کیتا کیتھڈرل لکھا تھا یہ بڑے گر جا گھروں کے ناموں میں سے ایک نا م ہے دیگر نا م چرچ‘ چاپل اور بیسے لیکہ بھی ہیں جو اہمیت کے لحا ظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں کیتھڈرل کا مقام ان میں سب سے اونچا ہے بڑے دروازوں میں سے ایک دروازہ کھلا تھا اندر داخل ہوئے صحن میں مالٹوں کا باغ نظر آیا، باغ سے گذر کر ٹکٹ گھر تک جا نے میں 10منٹ لگے، ٹکٹ گھر سے معلوم ہوا کہ امروز کے لئے ٹکٹ دستیاب نہیں اگلے دن صبح 10بجے سے 11بجے تک چرچ آزاد ہو گا اس کے بعد 2بجے کھلے گا ہم نے سوچا ایک گھنٹہ کا فی نہیں اس لئے 2 بجے سے 6بجے تک چار گھنٹوں کا ٹکٹ لے لیا ٹکٹ کے ساتھ خو دکار آڈیو گائیڈ کی پر چی مل گئی گائیڈ والا فو ن آلہ سما عت کے ساتھ مسجد میں داخلے کے وقت ہمیں دیدیا گیا اگلے دن مقررہ وقت پر مسجد کے صحن میں داخل ہوئے تو باغ کی دوسری طرف زائرین کی لمبی لا ئن لگی ہوئی تھی ہم بھی قطار میں لگ گئے، تھوڑی دیر میں کیتھڈ رل کے اندر پا دریوں کا پر وگرام ختم ہوا‘ لوگ دوسرے دروازے سے با ہر نکلے تو ہمارے سامنے کا دروازہ کھلا اندر داخل ہونے سے پہلے مجھ سے کہا گیا کہ ٹو پی دستی بیگ میں رکھو، جو تے پہن کر جا ؤ ایک سیا ح کتے کی رسی تھا م کر آیا اُس کو کتے کے ساتھ اندر جا نے کی اجازت ملی‘ حسرت مو ہا نی نے کیا بات کہی ہے جنو ن کا نا م خرد پڑ گیا خر د کا جنون جو چاہے آپ کا حسن کر شمہ ساز کرے، مسجد کے اندر داخل ہونے کے بعد حیرتوں کا لا متنا ہی سلسلہ شروع ہوا قرطبہ کی اسلامی حکومت کے سر براہ عبد الرحمن الداخل کو عباسیوں کی حکومت میں دمشق سے نکا لا گیا تو وہ مر اکش کے راستے بڑی تکلیفیں جھیل کر ہسپا نیہ میں داخل ہوئے یہاں غر ناطہ کی اسلا می ریا ست 711 عیسوی میں قائم ہوئی تھی 749عیسوی میں عبد الرحمن الدافل ہسپا نیہ آئے اور 6سالوں کی جہد مسلسل کے بعد قر طبہ کی اسلا می حکومت قائم کی قر طبہ کے شہر میں اس مسجد کی بنیا د 758ء میں رکھی گئی۔مو جو دہ عما رت 3مر حلوں میں بنی ابتدائی دور کی مسجد کے ستون بڑے بڑے چو کور بنیا دوں پر قائم ہیں دوسرے اور تیسرے مر حلوں میں الحا کم اور المنصو ر اموی نے مسجد کی تو سیع کی اسکے ستوں گول بنیا دوں پر ایستادہ ہیں اور ستونوں کے درمیان چھت کے محرا بی حا شیے دوگانہ بنا ئے گئے ہیں، پہلے ایک محرا بی حا شیہ اس کے اوپر دوسرا محرابی حا شیہ اور اس کے اوپر چھت‘ ابتدائی تعمیر میں منقش لکڑی کی چھت اور سفید سنگ مر مر کا فرش ہے تو سیع شدہ حصے میں ریت اور چونے کی چھت کے نیچے سر خ سنگ مرمر کا فر ش ہے چھت اور ستونوں پر باریک کام ہواہے پوری مسجد میں ہلکا رنگ استعمال ہوا ہے 1236عیسوی میں خلا فت اسلا میہ کے زوال کے بعد مسجد کو گر جا بنا لیا گیا تو عیسائیوں کے باد شاہ فرڈ یننڈ سوم کو افتتاح کے لئے بلا یا گیا اس نے مسجد کے اندر کانسی (Bronze) کا بنا ہوا کا لا گر جا دیکھا تو سپینش میں ایک جملہ بولا جس کا تر جمہ ہے ”محمل میں ٹاٹ کا پیو ند“ چنا نچہ مسجد کے اندر پا دریوں نے بزر گوں کی قد آدم تصاویر اور مجسموں کو سجا یا ہوا ہے جگہ جگہ بنچ اور کر سیاں رکھ کر سامنے مجسموں سے مزین سٹیج ہے محراب کو مشکل سے تلا ش کیا محراب اسلا می طرز تعمیر اور آرٹ کا نا در اور اعلیٰ نمو نہ ہے محراب کے اوپر چار دائروں میں آیا ت قرآنی کی خطا طی ہوئی ہے سب سے اوپر اللہ کی وحدا نیت اور دین خالص پر سورہ زمرکی آیتیں ہیں اس کے نیچے سورہ بقرہ کی آیت الکر سی ہے اس کے بعد سب سے قریبی سطر پر جو آیات ہیں وہ سورہ حشر کے آخری رکوع کی تین آیتیں ہیں محراب کے سامنے سے واپس آنے کو جی نہیں چا ہتا۔
‘ محراب کی طرح پوری مسجد کے 360ستون اور اس کی بے مثال دیواریں اسلا می آرٹ اور خطا طی کے حسین نمو نوں سے مزین ہیں ہم نے با دل نا خواستہ با ہرنکل کر مسجد کے قریب بہنے والے دریا وادی الکبیر کا رخ کیا مسجد کو الوداع کہتے ہوئے دل نے گو اہی دی‘ پو شیدہ تیری خا ک میں سجدوں کے نشان ہیں خا موش آذا نیں ہیں تیری با د سحر میں‘جہاں بھی گئے علا مہ اقبال یا د آگئے یہا ں بیٹھ کر دریا کو یوں مخا طب کیا تھا اور کہا تھا آپ روان کبیر تیرے کنا رے کوئی دیکھ رہا ہے کسی اور زما نے کا خواب کلا م اقبا ل میں عبد الرحمن اول کا بویا ہوا کھجور کا درخت بھی آیا ہے، ہسپا نیہ میں مسلمانوں کا عروج اُس وقت ہوا جب ان کی صفوں میں اتحا د اوراتفاق تھا‘ آپس کی خا نہ جنگی کے سبب 1258ء میں قر طبہ اور 1492ء میں غر نا طہ کی اسلا می حکومتیں غیر وں کے ہا تھوں لٹ گئیں‘ علا مہ اقبال نے یہ بھی تو کہہ دیا ہے میں تجھ کو بتا تا ہوں تقدیر امم کیا ہے شمشیر و سناں اول طاوس ورباب آخر‘ قرطبہ کے شہر میں اب بھی ابن رُشد، ابو القاسم زہر اوی، ابن حزم اور قر طبی کے آثار ملتے ہیں نئی مسا جد کا انتظام مسلمانوں کی تنظیم جنتا اسلا میکا اسپا نہ (Junta Islamica espana) کے پا س ہے اس کے صدر شیخ ہا شم کی ریٹا ئر منٹ کے بعدآخر میں ایک اور مسلم سکا لر مسز ازا بیلہ روما نیرو اس کی سر براہی کر تی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔