اسلامیہ کالج پشاور، برصغیر کی تعلیمی تاریخ کا ایک درخشاں باب ہے جو علاقے کی علمی، ثقافتی، اور قومی ترقی کی ایک عظیم علامت ہے۔ یہ ادارہ نہ صرف خیبر پختونخوا بلکہ پورے برصغیر میں مسلمانوں کے اتحاد و اتفاق، علم کی شمع روشن کرنے، اور تحریک آزادی کے فروغ کا اہم مرکز رہا ہے۔ اس کا ماضی سنہری یادوں اور مثالی کامیابیوں سے مزین ہے‘خیبر پختونخوا کے مسلمانوں کی تعلیمی حالت بہت پسماندہ تھی۔ ایسے وقت میں ایک ایسے تعلیمی ادارے کی ضرورت محسوس کی گئی جو مسلمانوں کو نہ صرف جدید تعلیم سے آراستہ کرے بلکہ ان کے ثقافتی اور دینی تشخص کو بھی برقرار رکھے‘ سال 1532 میں ریاست پختونخوا کے تاریخ ساز بادشاہ ملک گجوخان یوسفزئی نے سینکڑوں سکولوں سے جس تعلیمی سفر کا آغاز کیا تھا، جس کا تسلسل حاجی صاحب ترنگزئی کی تحریک اصلاح افاغنہ اور باچا خان کی خدائی خدمت گار تحریک کے زیر سایہ جاری رکھتے ہوئے سر صاحبزادہ عبدالقیوم اور سر جارج روز کیپل کی قیادت میں اسلامیہ کالج کی بنیاد رکھی گئی‘ اس کالج کے قیام کیلئے عوام نے بے مثال مالی تعاون کیا، مقامی لوگوں نے اپنی جائیدادیں، نقدی اور خواتین نے اپنے زیورات دارالعلوم اسلامیہ کی جھولی میں ڈال کر ایک نئی روایت قائم کردی اور یہ قربانی آج بھی اتحاد کی بہترین مثال ہے۔اسلامیہ کالج پشاور نے اپنے ابتدائی دنوں سے ہی تعلیمی میدان میں اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کیا‘ یہاں کے طلبہ نے مختلف نصابی اور ہم نصابی شعبہ جات میں نمایاں کامیابیاں حاصل کیں، جن میں سائنس، ادب، سیاست، اور سماجی خدمات شامل ہیں۔ اس ادارے نے ہمیشہ تعلیمی معیار کو اولین ترجیح دی، اور یہی وجہ ہے کہ یہ پورے خطے کے طلبہ کیلئے کشش کا مرکز بن گیا۔اسلامیہ کالج کے فارغ التحصیل طلبہ نے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ سیاستدان، قانون دان، کھلاڑی، بیوروکریٹ، ادیب، اور سائنسدانوں کی ایک طویل فہرست اس ادارے کی علمی برتری کی گواہی دیتی ہے۔اسلامیہ کالج پشاور کا تابناک ماضی ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ تعلیمی ادارے قوموں کی ترقی میں کس قدر اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ ادارہ نہ صرف تعلیمی بلکہ قومی اور سماجی ترقی کی علامت رہا ہے۔ اسلامیہ کالج کا ماضی ہمیں یہ یقین دلاتا ہے کہ جب علم، اتحاد، اور قربانی ایک جگہ جمع ہو جائیں تو عظیم کامیابیاں حاصل کی جا سکتی ہیں۔ آج بھی، اسلامیہ کالج کا ماضی ایک مثال کے طور پر ہمارے سامنے ہے اور ہمیں بہتر مستقبل کی تعمیر کا درس دیتا ہے۔اس کالج کے قیام کے لئے مقامی عوام نے جب دل کھول کر چندہ دیا تو یوں یہ ادارہ مسلمانوں کے اتحاد اور قربانی کی علامت بن گیا۔اسلامیہ کالج پشاور تحریکِ آزادی کے دوران ایک اہم مرکز کے طور پر ابھرا۔ یہاں کے طلبہ اور اساتذہ نے تحریکِ پاکستان میں نہایت فعال کردار ادا کیا۔ قائداعظم محمد علی جناح نے اس کالج کا تین مرتبہ دورہ کیا اور طلبہ کی حوصلہ افزائی کی۔ قائداعظم نے اس کالج کی خدمات کو سراہتے ہوئے اپنی وصیت میں فرمایا کہ اسلامیہ کالج پشاور، علی گڑھ مسلم کالج اور سندھ مدرس الاسلام کو ان کے ترکے میں برابر کا حصہ دار ٹھہرایا جائے جو اس ادارے کی قومی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔اسلامیہ کالج کی عمارت اپنی شاندار اسلامی طرزِ تعمیر کی وجہ سے بھی مشہور ہے۔ اس کے بلند مینار‘ گنبد اور سرسبز میدان دیکھنے والوں کو مسحور کر دیتے ہیں۔ یہ عمارت اسلامی فنِ تعمیر کی عظمت کی ایک مثال ہے اور خیبر پختونخوا کی ثقافتی وراثت کا حصہ ہے۔اپنی جائیدادیں، نقدی اور خواتین نے اپنے زیورات دارالعلوم اسلامیہ کی جھولی میں ڈال کر ایک نئی روایت قائم کردی اور یہ قربانی آج بھی اتحاد کی بہترین مثال ہے۔2008ء میں اسلامیہ کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا، تو اب یہ اسلامیہ کالج یونیورسٹی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جدید دور میں یہ ادارہ نہ صرف اعلیٰ تعلیم بلکہ تحقیق کے میدان میں بھی نمایاں مقام رکھتا ہے۔ یہاں کے جدید شعبہ جات اور تحقیقی مراکز طلبہ کو دورِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق تعلیم فراہم کر رہے ہیں۔اسلامیہ کالج پشاور ایک تاریخی ادارہ ہے جو علم، کردار سازی، اور قومی یکجہتی کی علامت ہے۔ اس کی بنیاد رکھنے والوں کی قربانیاں اور یہاں سے نکلنے والے طلبہ کی کامیابیاں اس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ یہ ادارہ ایک خواب کی تعبیر ہے۔ آج اسلامیہ کالج نہ صرف خیبر پختونخوا بلکہ پورے پاکستان کے تعلیمی نظام کا فخر ہے۔اسلامیہ کالج کے شاندار ماضی کے بارے میں آپ نے گذارشات ملاحظہ فرمائیں۔ اس عظیم ادارے کا حال کیا ہے اور اس کا مستقبل کیا ہوگا؟ کالج سے یونیورسٹی بننے کے بعد اس کا کیا حشر ہوا اور آج کل طلبا اور ملازمین کن مسائل سے دو چار ہیں؟ اس بارے میں تفصیلی معلومات اور مبنی برحقائق تبصرے آئندہ دنوں میں ملاحظہ کریں گے۔
اشتہار
مقبول خبریں
دریائے سندھ: ایک جائزہ
مہمان کالم
مہمان کالم
اسلامیہ کالج پشاور کا تابناک ماضی
مہمان کالم
مہمان کالم
پشاور کی بے ہنگم ٹریفک کی وجوہات
مہمان کالم
مہمان کالم