اندلس کی شب وروز


یہ علا مہ اقبال‘ آباد شاہ پوری‘ نسیم حجا زی اور ممتاز منگلو ری کے ساتھ ذہنی تعلق کا کما ل ہے کہ میں نے اندلس میں مستنصر حسین تارڑ کی طرح خو د کو اجنبی خیال نہیں کیا مجھے یہاں کا چپہ چپہ دیکھا بھا لا محسوس ہوا پہلی بار یہ احساس ہوا کہ مطا لعہ چاہے محدود بھی ہو کسی نہ کسی دن کا م آتا ہے غر نا طہ میں گھومتے ہوئے جگہ جگہ المدینہ ‘ الا میرہ ‘ الجزیربتہا لحضری اور الز ہرا کے سائن بورڈ نظر آئے تو ایسے لگا جیسے اس ملک کا نا م اب بھی اندلس ہی ہو ‘ جگہ جگہ المدینہ اور الز ہرا کے سائن بورڈ نظر آئے تو ایسے لگا جیسے میں کسی اسلا می ملک میں پھر رہا ہوں فاروق نے یہاں مرا کش کے ایک مسلمان شہری کی طرف سے کھولے گئے حلال ریسٹورنٹ کا نا م اور پتہ نوٹ کر لیا تھا شام کے وقت شہر کے بڑے چوک میں لوٹن بر طانیہ سے آنے والے مدثر بھا ئی مل گئے ان کے ہمراہ فیملی تھی انہوں نے حلال ریسٹورنٹ کا پتہ پو چھا تو فاروق نے انکے مو بائل میں مذکورہ ریسٹور نٹ کا پتہ ڈال دیا ایک گھنٹہ بعد ہم وہاں پہنچے تو مدثر بھا ئی بچوں کو لیکر کھا نا کھا رہے تھے‘ مالاگہ کی پارکنگ میں بر منگھم سے آئے ہوئے اختر بھائی ملے آپکا تعلق ایبٹ آباد سے ہے مجھے انہوں نے ٹو پی سے پہچا نا ہم ایک ساتھ پار کنگ سے با ہر آئے وہ شاہی محل دیکھنے جا رہے تھے فیملی کو لیکر کا سل کی طرف روانہ ہوئے ہم نے مشہور مصور اور ابیسٹریکٹ آرٹ کے ماہر پکاسو کا عجائب گھر دیکھنا تھا وہ دیکھیں گھر باد شاہ کا ہم مو قلم کی شان دیکھتے ہیں پکا سو ما لا گہ میں پیدا ہوئے تھے عمر کا زیا دہ حصہ فرانس میں گزارا فن کی دنیا میں نام پیدا کیا عجا ئب گھر کی 8گیلریاں ہیں جن میں 140نمو نے رکھے ہیں گائیڈ ایک آڈیو ہے جو دروازے پر ٹکٹ کے ساتھ مو بائل میں ڈاﺅن لوڈ کیا جا تا ہے پکا سونے معا شرتی نا ہمواری اور عورت پر ہونے والے ظلم کو اپنی تخلیقی صلا حیت سے سینکڑوں پہلو وں سے دکھا یا ہے گھوڑے پر سوار ان کے 8سالہ بیٹے کی تصویر واحد شہکار ہے جو ابلا غی آرٹ میں ہے‘ اشبیلیہ کو سائن بورڈ میں سیو یلہ لکھا جا تا ہے یہاں عبدا لرحمن اول کا لگا یا ہوا بے نظیر باغ ہے مجھے کھوار کے لو ک ادب میں 
نامعلوم شاعر کا کلا م یا د آیا یہ ایک گیت ہے جس کا نام ” لا لو زانگ “ ہے شاعر اپنے محبوب سے کہتا ہے رقیب کو لیکر دوبارہ باغ میں مت آﺅ یا تو باغ کو جلا کر ہنگا مہ بر پا کرونگا یا رقیب کو مار کر نکلونگا اور تیری گردن پر خون ہو گا ‘ یہاں صورت حال ایسی ہے کہ لا لو زنگ کا باغ رقیب کے قبضے میں ہے اور بے چارہ عاشق خون کے گھونٹ پینے کے سوا کچھ بھی نہیں کر سکتا قر طبہ کے شہر میں درو بام سے گفتگو ہو تی ہے مسجد قرطبہ کی بعلی گلی میں ایک سائن بورڈ دیکھا اُس پر جلی عربی حروف میں ”مطعم “ لکھا ہوا تھا اندر جھا نکا تو حلا ل کھا نوں کا ریسٹورنٹ تھا ‘ ریسٹورنٹ کے قریب ہی جدید مسجد ہے جو نماز کے اوقات میں کھلتی ہے ریسٹورنٹ کی چھت پر بھی نما ز کی جگہ ہے جہاں مسلمانوں کے بچے قرآن اور نما ز سیکھتے ہیں ریسٹورنٹ کا ما لک محمد طٰہٰ مر اکش کا رہنے والا ہے اُس نے اردن اور فلسطین میں بھی وقت گذارا ہے یہاں فلسطینی کھانا بقلا وہ اور مرا کش کی مشہور ڈش تاجین کھانے کا اتفاق ہوا اگلی گلی میں یہودیوں کا معبد سینا گاگ ہے ‘ اس معبد کے سامنے ایک مسلمان کا گھر ہے جس کو عجائب گھر میں تبدیل کیا گیا ہے انگریزی میں اس کا مختصر تعارف ایک ورق پر لکھ کر پلا سٹک میں بند کیا گیا ہے عر بی یا انگریزی میں کوئی بروشر یا کارڈ وغیرہ نہیں ‘ گھر کی دو منزلوں کے 7کمروں میں قدیم نوادرات سجا ئے گئے ہیں عجا ئب گھر کی نمایاں چیزوں میں فلسفی ابن رشد کا مجسمہ ‘ جغرافیہ دان ابن خوردابہ کا گلو ب اور اندلس میں کا غذ بنانے کی پہلی مشین قابل ذکر ہیں اس مشین میں کپا س کو دھننے کے بعد سات مر حلوں میں کا غذ تیار کر نے کا عملی نمو نہ رکھا ہوا ہے مشین لکڑی کی بنی ہے اور اس کی ساخت بھی سادہ ہے اس مشین سے بنے ہوئے کا غذ پر لکھی ہوئی عربی کتا بوں کے اوراق بھی الماریوں میں سجا ئے ہوئے ہیں ایک ورق پر ابن بر دا لا صغر کا شعر مل گیا ما اعجب شان القلم یشرب ظلمتہ ویلفظ نور القلم کی کیا عجیب شان ہے کا لی سیا ہی پیتا ہے اور الفاظ میں روشنی بکھیر تا ہے ایک گلی میں اُمیون کے نا م سے ریسٹورنٹ ہمیں ملا جو سپین کے مسلمان خاندان کا ہے شہر کا ثقافتی مر کز دریا کے کنا رے رومی پل کے مینار کے سامنے تھیٹر ہے اس تھیٹر میں ہر شام مو سیقی کی محفل ہو تی ہے۔ مسجد قرطبہ کے مینار پر الوداعی نظر پڑتی ہے تو دل کی دھڑ کنیں تیز ہوتی ہیں۔