پھولوں کا ریت اور سمندر سے تعلق نہیں ہوتا مگر خلیجی ملک قطر میں تینوں کا گہرا تعلق نظر آتا ہے ریت کے ساتھ سمندر کا کھارا پانی شامل ہو جائے تو پودا نہیں اگتا کوئی تخم، کوئی بیج ثمر بار نہیں ہوتا مگر یہاں لو گوں نے با ہر سے مٹی اور پا نی لا کر پھول بھی اگا ئے پھل بھی لگائے‘نا ممکن کو ممکن کر دکھا یا ہے‘ قطر کا رقبہ 11ہزار مر بع کلو میٹر ہے جو سابق ریا ست چترال کے رقبے سے کم ہے‘اس کی آبادی 27لا کھ لکھی جا تی ہے جو سوات کی آبادی کے برابر بھی نہیں‘ اس کے باو جود اس کا ریا ستی نظام اس قدر مضبوط ہے کہ امریکی بحری بیڑے کو یہاں جگہ ملی ہوئی ہے، افغا نستان کا مسئلہ قطر کی ثا لثی میں حل ہو ا، فلسطین میں جنگ بندی کے لئے قطرنے 3بار ثا لثی کی اب پھر جنگ بندی کی بات چل رہی ہے، قطر ائیر ویز کو دنیا کی اہم فضا ئی کمپنیوں میں شما ر کیا جا تا ہے قطر میں اعلیٰ تعلیم کی جدید یو نیور سٹیاں قائم ہیں، اس کا دار الخلا فہ دوحہ دنیا بھر کے سیا حوں کو دعوت نظارا دیتا ہے حیرت کی بات یہ ہے کہ چھوٹے سے شہر دوحہ میں 8عجا ئب گھر اور 10پارک ہیں، اس کی ٹرام سروس دنیا کی بہترین ٹرینوں میں سے ایک ہے اس کی میٹرو ایشیا کی جدید ترین زیر زمین ریلوے کہلاتی ہے اس کا ہوائی اڈہ دنیا بھر کے جہازوں کو جگہ دیتا ہے اور اس کی بندر گاہ دنیا بھر کی سمندر ی ٹریفک کی آماجگاہ ہے، یہاں کے 8بڑے سٹیڈیمز کو اس وقت شہرت ملی جب 2022ء کا فٹ بال ورلڈ کپ یہاں کھیلا گیا، قطر نے فیفا FIFAکپ 2022ء کی میز بانی کی‘یہ سب بنیا دی ڈھا نچے کی باتیں ہیں کمال یہ ہے کہ قطر کے نظم و نسق میں ترقی یا فتہ مما لک امریکہ، چین اور جر منی، فرانس یا اٹلی کی طرح ہر شہری، ہر گاڑی،ہر مکان اور ہر دکان کا پورا ریکارڈ کمپیو ٹر چیپ پر دستیاب ہے، خدا نخواستہ کوئی مزدور بیمار ہوجا ئے کسی گاڑی کو حا دثہ پیش آئے تو ڈاکٹر یا ٹریفک اہلکار اس کا ریکارڈ 10سیکنڈ میں نکال لیتا ہے، یہاں شخصی حکومت ہے مگر حکمران کے گھر کا راستہ بند نہیں ہوتا‘وائٹ پیلیس یا دیوان لامیر کے چار وں طرف رات دن ٹریفک رواں دواں رہتی ہے دوحہ شہر سے انگریزی کے تین اخبار نکلتے ہیں، قطر ٹریبیون، گلف ٹائمز اور پے نین سولہ (Peninsula) ان اخبارات کا 95فیصد حصہ معیشت، تجا رت، سیا حت اور صنعت و حر فت کے لئے وقف ہے کسی لیڈر کا بیاں بہت کم آتا ہے کسی وزیر کی تصویر اُس وقت آتی ہے جب وہ غیر ملکی مہمان کے ساتھ تجا رت کا کوئی معا ہدہ کر تے ہوئے پا یا جا تا ہے، قطر کا ٹیلی وژن چینل الجزیرہ نشریات کی دوڑ میں بی بی سی اور سی این این کا مقا بلہ کرتا ہے اور یہ بھی اس وجہ سے کہ قطر کی حکومت چینل کو فنڈ اور وسائل بجٹ کے مطا بق دیتی ہے اس کے پیشہ ورانہ امور کو اپنے کنٹرول میں نہیں رکھتی کئی بار ایسا ہوا کہ دوست مما لک نے الجزیرہ پر کوئی خبر رکوانے کی کو شش کی لیکن قطری حکومت نے کسی دوست کی خا طر اپنے اصول سے انخراف نہیں کیا، دوحہ میں ہمارا قیا م الغا نم جدید کے محلے میں واقع چار ستاری ہوٹل میں تھا، ہمیں سوق الواقف کے قدیم بازار یاکاتاراکے قدیم گاؤں کا ما حول بھی بہت اچھا لگا، کورنیش المدینہ، شحا نیہ، دوخن، یا کسی اور جگہ آتے جا تے کوئی مشکل پیش نہیں آئی ہر 10منٹ بعد بس آتی ہے یا ٹرام اور میٹرومیں جگہ ملتی ہے‘شہر میں سیا حوں کے لئے کیب سروس بھی سستے ریٹ پر ملتی ہے، ڈبل ڈیکر بس بھی چلتی ہے تا ہم اس کے لئے پیشگی ٹکٹ لینا پڑتا ہے، یہاں مجھے طارق بن زیا دکے نا م کی سڑک بھی ملی،الاندلیسیہ کے نا م کا محلہ بھی ملا اور المنصور ہ نا م کی جگہ بھی ملی، گویا جدیدیت کے ساتھ اسلا می تاریخ کو اپنے دامن میں زندہ رکھے ہوئے ہے‘قطر یوں کا حس جما لیات بھی تر کوں اور ایرانیوں سے کم نہیں‘70منزلہ عما رتوں کے ڈیزائن جر من اور فرانسیسی انجینئروں سے بنوائے گئے ہیں‘ہر عما رت جاذب ِنظر اور دلکشی میں بے مثال ہے۔
‘ایک دن دوحہ پورٹ پر امریکی جنگی جہاز USS ESSEXکو دیکھا یہ جہاز مشترکہ جنگی مشقوں کے لئے آیا ہو اہے ہم نے سوچا کہ امریکی جنگی جہاز سے زیا دہ اہم و ہ شارک ہے جو سمندر کی تہہ میں پا کستان کے موا صلا تی کیبل کو کاٹتی رہتی ہے دل چاہتا تھا کہ شارک سے ”مذاکرات“ ہو جا ئیں مگر شارک نے ہمیں لفٹ ہی نہیں دی‘دیگر خلیجی مما لک کی طرح قطر میں بھی امریکہ کے بعد بھارت کا اثر و رسوخ دوسرے ملکوں سے زیا دہ ہے، ایسا لگتا ہے کہ کسی مر حلے میں امریکہ کے پاؤں اکھڑ گئے تو اس کی جگہ بھارت لے لے گا‘ چین اور روس ایک دوسرے کا منہ دیکھتے رہ جائیں گے‘ ایک دن نا مور سرجن ڈاکٹر امجد علی شاہ کے ہمراہ پر ل آئی لینڈ جا نے کا اتفاق ہوا‘یہ بحر احمر کا چھوٹا ساجزیرہ ہے جس کو ایک پل کے ذریعے دوحہ سے ملا یا گیا ہے اور قطر کی تاریخ سے اس کی منا سبت پیدا کر نے کے لئے لوء لوء یعنی پر ل (Pearl) کا نا م دیا گیا ہے‘ جزیرے کے چاروں طرف جدید کشتیاں کھڑی ہیں‘ ڈاکٹر امجد نے کہا آپ کس کشتی میں سوار ہونگے میں نے سوچا ہم تو دو کشتیوں میں پاؤں رکھنے کے عادی ہیں؟