وخان کی خبریں 

وَخان کا نا م دو الفاظ کا مر کب ہے ووخ وہاں بسنے والے لو گوں کا نام ہے اور آن کھوار زبان میں درے کو کہتے ہیں ، یہ درہ اشقومن گلگت اور بروغیل چترال سے ملحق ہے اس وجہ سے وخان میں کوئی نا خو شگوار واقعہ ہوجائے تو نقل مکانی کرنے والے چترال یا گلگت کا رخ کر تے ہیں تاریخ میں ایسی بے شمار مثا لیں ہیں وخان کی تنگ پٹی افغا نستان کا السوالی (ضلع ) ہے اس کی لمبائی 250کلو میٹر اور چوڑا ئی مغر بی جا نب 15سے 22کلو میٹر ہے جبکہ مشر قی جانب وسیع ہو کر 75کلو میٹر بن جا تی ہے مغرب کے تنگ حصے میں تا جکستان اور بد خشان کو راستے جا تے ہیں ، مشرق کے وسیع حصے میں پا میر اور چینی صو بہ سنکیانگ کو جا نے والے راستے ملتے ہیں وخان کی آبادی 27ہزار نفوس پر مشتمل ہے یہ آبادی تاریخ میں پر امن اور مہذب ہونے کے لئے مشہور ہے ، دو افغان دانشور وں نے وخان پر کتا بیں لکھی ہیں ‘بر ہان الدین کو شکا کی اور نظیف محب شہرانی کی تصانیف کو اس مو ضو ع پر ابتدائی ما خذ کا در جہ حا صل ہے‘ 1873ءسے 1892ءتک وخا ن کی پٹی کو روس اور بر طانوی ہند کے درمیان غیر جا نبدار علا قہ بفر زون بنا یا گیا تھا ‘1892ءمیں امیر عبد الرحمن خان نے اس کو دوبارہ اپنی عملداری میں شامل کیا‘ 1982ءمیں پا میر اور وخان سے ہجر ت کرنے والوں میں پا میر کے کر غیز لیڈر حا جی رحمن قل کو 1200مہا جرین کے ہمرا ہ تر کیہ کی حکومت نے مستقل آبادکاری کا عندیہ دے کر انقرہ بلا لیا‘ باقی مہا جرین تا جکستان ، گلگت اور چترال میں بسائے گئے ، کچھ لو گوں نے فیض آباد اور کا بل میں پنا ہ لے لی ، قیا م امن کے بعد قریبی علا قوں میں پنا ہ لینے والے مہا جرین واپس اپنے گھروں میں گئے حا جی رحمن قل اپنے قبیلے کے ساتھ تر کیہ میں آباد ہوا ، وخان اور پا میر سطح سمندر سے 14000تا 16000فٹ کی بلندی پر واقع ہیں ، 14000فٹ کی بلندی سے نیچے آلو اور جوکی فصل ہو تی ہے‘ اس سے اوپر جائیں تو فصل کوئی نہیں ہو تی ، پا میر کے علا وہ وخان میں چل کند سے اوپر مشرق اور شما ل مشرق کی طرف بو زائی گُمبز اور سوختہ رباط تک سارا وسیع علا قہ کا شت کاری کے قابل نہیں اس لئے لو گ مال مو یشی پا ل کر گذارہ کر تے ہیں اور انا ج قریبی علا قوں سے خرید کر لا تے ہیں وخان کی جوخبریں حا لیہ دنوں میں میڈیا پر آرہی ہیں ان کا تعلق حقیقت سے زیا دہ وہم اور غلط فہمی سے ہے‘ ایک طبقہ کہتا ہے کہ وخان کو الگ ریا ست کا درجہ دیا جا رہا ہے ‘دوسرا طبقہ کہتا ہے کہ وخا ن کو پا کستان میں شا مل کیا جا رہا ہے ، دونوں خبروں کا زمینی حقا ئق سے کوئی تعلق نہیں اس وقت افغانستان کی حکومت نے عوامی جمہوریہ چین ، تا جکستان اور بھا رت کے ساتھ دوستی اور تعاون کے کئی معا ہدے کئے ہیں ان معا ہدوں کے مطا بق چین کی حکومت دریائے آمو سے بڑی نہر لا نے کے لئے کا م کر رہی ہے زمینی سڑک تاشقر غن سے افغانستان لائی گئی ہے سڑک کے ساتھ ریلوے پٹڑی بھی بچھا ئی جا رہی ہے افغا نستان کے اندر بجلی کے منصو بوں پر بھی کا م ہو رہا ہے تر قیا تی منصو بوں میں افغانستان کی اما رت اسلا می کو چین ، تا جکستان اور بھا رت کا بھر پور تعاون حا صل ہے ، ہو سکتا ہے امریکہ کو یہ تعاون پسند نہ ہو ، ہو سکتا ہے امریکہ ایک بار پھر چاہتا ہوکہ ایک بار پھر پاکستان کا کندھا استعمال کر کے افغانستان میں نئی جنگ شروع کرے لیکن یہ بھی زمینی حقیقت ہے کہ مو جو دہ حالات میں پا کستان کسی نئی جنگ کے لئے امریکہ کا آلہ کار نہیں بنے گا ، جو لوگ ہز ہائی نس پرنس کریم آغا خان سے اس قسم کی امید رکھتے ہیں وہ بھی غلطی پر ہیں ہز ہائی نس کے خاندان کی تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں کہ کبھی کسی جنگ میں کسی فریق کی مدد کی ہو‘ مو جو دہ حالات میں ان سے اعلا نیہ جنگ میں مدد کی توقع کرنا بعید از قیا س ہے‘ اس وقت سفارت کاری کے محاذ پر پا کستان اور چین کے مفادات میں یکسا نیت ہے ، عوامی جمہوریہ چین کا جو مفاد ہے وہی پا کستان کے مفاد میں ہے ، چین کا مفاد وخان کی پٹی کو میدان جنگ بنا نے میں نہیں ، نیز یہ بھی حقیقت ہے کہ پا کستان نے ما ضی میں امریکہ کو افغا نستان کی جنگ میں اپنا کندھا پیش کر کے بڑا نقصان اٹھا یا ہے اب اس نا کام تجربے کو دہرا یا نہیں جا ئے گا۔ 

، تا جکستان اور پا کستان کے درمیان بجلی کی تر سیل کا معا ہدہ ہو چکا ہے اس پر عملدر آمد التواءمیں ہے ، التواءکی وجو ہا ت پر قابو پا نے کے بعد ٹرانسمیشن لائن افغان حکومت کے تعاون سے بچھا ئی جا ئیگی بھارت ضرور چاہے گا کہ پا کستان کو کسی نئی جنگ کی بھٹی میں جھونک دے تاکہ اس کو پا کستان پر ایک اور وار کرنے کا مو قع مل سکے مگر پا کستان کی قیا دت ایسی کسی بھی طالع آزمائی میں خود کو نہیں پھنسائے گی مومن ایک سوراخ سے دوبار ڈسا نہیں جا تا اس لئے وخان کے بارے میں ساری افواہیں غلط ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔