اسلام آباد:
دفتر خارجہ کی جانب سے قائمہ کمیٹی کو دی گئی بریفنگ میں بتایا گیا ہے کہ لیبیا کشتی حادثے میں ڈوبنے والے 73 میں سے 63 پاکستانی تھے، جن میں سے بیشتر جاں بحق ہوگئے ہیں۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور کو دی گئی بریفنگ میں دفتر خارجہ حکام نے بتایا کہ لیبیا میں کشتی حادثہ 8 فروری کو رونما ہوا، جس میں 73 افراد کے سوار ہونے کی اطلاعات ہیں۔
حادثے میں 2 پاکستانی شہری زندہ بچ گئے، جنہوں نے اطلاع دی کہ 63 پاکستانی اور 10 بنگلا دیشی کشتی میں سوار تھے۔ کشتی میں سوار افراد کی اکثریت جاں بحق ہوگئی اور جاں بحق پاکستانیوں کی اکثریت کا تعلق ضلع کرم اور باجوڑ کے قبائلی اضلاع سے ہے۔
چیئرمین کمیٹی نے استفسار کیا کہ جو کشتی حادثات رونما ہو رہے ہیں، اس پر دفتر خارجہ کیا تحقیقات کر رہا ہے؟
سیکرٹری خارجہ نے بتایا کہ بیرون ملک پاکستانیوں کی اسمگلنگ کے لیے ہم نے انٹر پول کے ساتھ رابطے مضبوط کیے ہیں تاکہ گروپس کو پکڑا جا سکے۔ انسانی اسمگلروں کے خلاف ملکی سطح پر وزارت داخلہ کو کردار ادا کرنا ہو گا۔ وزیراعظم نے ایسے واقعات کو روکنے کے لیے ٹاسک فورس قائم کر دی ہے۔ ہم میڈیا مہم بھی چلا رہے ہیں جو لوگوں میں آگاہی فراہم کرے گی تاکہ غیر قانونی طریقے سے یورپ میں داخل نہ ہوں۔
غزہ سے متعلق ٹرمپ کے بیان کی شدید مذمت
چیئرمین کمیٹی سینیٹر عرفان صدیقی کی صدارت میں ہونے والے قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور کے اجلاس میں فلسطین میں اسرائیلی جارحیت پر بحث کی گئی، جس میں رکن کمیٹی شہریار اکبر خان نے کہا کہ فلسطینی سفیر کی جانب سے ہمیں لیٹر موصول ہوا تھا جس میں غزہ نسل کشی سے متعلق بل متعارف کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ پہلے مرحلے میں غزہ میں امن امان کی صورتحال کو یقینی بنانے کے لیے اقدام کرنا تھا۔ دوسرے مرحلے پر فلسطین میں مکمل سیز فائر پر غور کرنا تھا۔ 4 فروری کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے بیان آیا کہ غزہ پر قبضہ کرنا ہے۔ اس کے بعد 6 فروری کو دوبارہ ایک بیان سامنے آیا جس میں فلسطینی عوام کو عرب ممالک میں آباد کرنے کا کہا گیا ۔
شہریار اکبر خان نے بتایا کہ پاکستان کی جانب سے غزہ کی صورتحال پر متعدد بار بیان جاری ہوا ہے ۔ ہماری گزارش ہے کہ سینیٹ سے ایک ریزولوشن جاری کی جائے، جس میں غزہ میں ہونے والے سیز فائر کا خیر مقدم کیا جائے اور صاف الفاظ میں اس بات پر زور دیا جائے کہ فلسطین کا دارالحکومت القدس شریف ہے۔ غزہ کے علاوہ ویسٹ بینک پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔
چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ آپ کل تک سخت الفاظ میں ایک ڈرافٹ بنا کر شیئر کریں جس میں پاکستان غزہ میں ہونے والے مظالم کی مذمت کرتا ہے۔ اس ڈرافٹ میں یقینی بنایا جائے کہ ڈپلومیٹک الفاظ نہ ہوں کیونکہ اس میں سخت الفاظ نہیں ہوتے۔ ٹرمپ نے غزہ سے متعلق جو بیان دیا ہے، اس کی سختی سے مذمت کی جائے۔
رکن کمیٹی علی ظفر استفسار کیا کہ ٹرمپ کے غزہ سے متعلق بیان پر حکومت پاکستان اور دفتر خارجہ کا آفیشل اسٹیٹمنٹ جاری کیا گیا ہے، جس پر شہریار اکبر خان نے بتایا کہ دفتر خارجہ کی جانب سے متعدد بار اس عمل کو مسترد کرتے ہوئے بیان جاری کیا گیا ہے۔ وزیر خارجہ اسحاق ڈار کی جانب سے بھی گزشتہ روز 2 الگ الگ بیان جاری ہوئے۔وزیر خارجہ کی جانب سے مختلف وزارئے خارجہ سے اس امور پر ٹیلی فونک رابطے ہوئے۔
چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ان بیانات کے علاوہ پاکستان کی سطح پر اس ظلم و جارحیت سے متعلق کیا کام ہو رہے؟، جس پر سیکرٹری خارجہ نے بتایا کہ غزہ کی صورتحال پر او آئی سی کا اجلاس بلانے سے متعلق بات چیت چل رہی ہے۔ اس پر وزیر خارجہ کے مختلف اسلامی ممالک سے رابطے ہوئے ہیں۔ اسی طرح تمام اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کا مشترکہ اجلاس بلا کر بات چیت کی جائے گی۔
رکن کمیٹی علی ظفر نے پوچھا کہ ابھی تک غزہ میں کتنے بچوں کی اموات رپورٹ ہوئی ہیں، ہمارے پاس اس کا ڈیٹا کتنا ہے؟
شہریار اکبر خان نے بتایا کہ مجموعی طور پر 61000 اموات کا بتایا جا رہا ہے، اس میں سے 70فیصد تعداد بچوں اور خواتین کی ہے۔