مشکل زندگی 

وطن عزیز میں اب ایک غریب آدمی کو موت بھی اتنی ہی مہنگی پڑتی ہے کہ جتنی شادی خانہ آبادی ‘قسم قسم کی رسومات پر اخراجات نے عام آدمی کی زندگی تلخ کر دی ہے‘شادی کے بارے میں تو اب تک لوگ جہیز کی لعنت کا رونا روتے تھے اب بات بہت آ گے بڑھ گئی ہے ‘مثال کے طور پر پہلے زمانے میں دلہن کی سہیلیاں بارات کی رات اس کے گھر جمع ہو جاتی تھیں اور ڈولی میں اسے رخصتی سے قبل اس کا بناﺅ سنگھار کر دیتی تھیں‘ اب اسے بیوٹی پارلر میں بنا ﺅسنگھار کے واسطے لے جایا جاتا ہے ‘جہاں اچھے خاصے خرچے سے اسے میک اپ کرایا جاتا ہے اور تو اور اب دولہا بھی بارات کی رات بیوٹی پارلر کا رخ کرتا ہے‘ مہندی کی رسم پر علیحدہ خرچہ اور ولیمے کہ روٹی پر علیحدہ ا خراجات۔ زیادہ عرصے کی بات نہیں کسی محلے یاگاﺅں میں کوئی فوتگی ہو جاتی تو محلے یاگاﺅں
 کے لوگ باری باری ہفتہ دس دن تک فوتگی والے گھر میں اہل خانہ اور تعزیت کے لئے آ نے والے افراد کے کھا نے پینے کا بندوبست کرتے تھے‘ اب اس قسم کے بھائی چارے اور یکجہتی کو جیسے بھلا دیا گیا ہو ‘فوتگی والے گھر کے افراد ایک طرف تو دنیا سے جانے والے گھر کے فرد کے غم میں افسردہ ہوتے ہیں تو دوسری طرف تعزیت کے لئے آنے والے افراد کے کھانے پینے کا اضافی بوجھ ان کی پریشانیوں میں اضافہ کر دیتا ہے ‘کہنے کا مقصد یہ ہے کہ دنیا میں جینا بھی بہت مشکل ہوتا جارہا ہے اور مرنا بھی ‘مادہ پرستی کے اس دور میں انسانی رشتے کمزور پڑتے جا رہے ہیں۔ان جملہ ہائے معترضہ کے بعد آج کے تازہ ترین عالمی اور قومی امور کا ہلکا سا ذکر کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ فتنہ الخوارج کو افغان طالبان کا یہ انتباہ قابل اطمینان ہے کہ پاکستان میں لڑنا جائز نہیں اب خدا کرے کہ افغان طالبان اپنے اس فیصلے کو عملی جامہ بھی پہنائیں‘ کیونکہ ماضی میں بھی دہشت گردوں کے خلاف اس قسم کے کئی فیصلے کئے گئے ‘پر وہ دہشت گردوں کے کان پر نہ رینگے ۔

آ زر بائیجان کا پاکستان میں دو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا اعلان وزیر اعظم پاکستان کی ان ذاتی کوششوں کا نتیجہ ہے جو وہ گزشتہ کئی ماہ سے دن رات کر رہے ہیں۔ شکر ہے کہ بعد از خرابی بسیار یورپی یونین کا ضمیر جاگا ہے اور اس نے اعلان کیا ہے کہ غزہ پر حملے اب حد سے تجاوز کر گئے ہیں۔ ڈرائیونگ لائسنس مبینہ طور پر ٹریفک پولیس کی مٹھی گرم کر کے بہ آ سانی حاصل کیا جا سکتا ہے ‘یہی وجہ ہے کہ جن کے پاس ڈرائیونگ لائسنس ہو بھی تو وہ ٹریفک قوانین سے کورا ہوتا ہے ‘ٹریفک پولیس کے پاس ایسا کوئی جامع سسٹم موجود ہی نہیں کہ جس سے ان گاڑیوں کو سڑک پر آنے سے روکا جا سکے کہ جو میکینکلی ان فٹ ہوں ‘تیز رفتاری میں ملوث ڈرائیوروں کو جب تک قرار واقعی سزا نہیں دی جائے گی اور کسی بھی منشیات کے استعمال کے بعد ڈرائیونگ کرنے والے کی گاڑی بحق سرکار ضبط کر کے اس کا ڈرائیونگ لائسنس عمر بھر کے لئے کیسل نہیں کیا جائے گا‘ تیز رفتاری کی وجہ سے ٹریفک حادثات ہوتے رہیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔