سوچ میں فرق

سرمایہ دارانہ اور سوشلسٹ نظام کے پرچارک حکمرانوں کی سوچ میں کافی فرق ہوتاہے‘عوام کے ٹرانسپورٹ کے مسئلے کو ہی آج لے لیتے ہیں‘ثانی  الذکر سوچ رکھنے والے اس طرح  اسے حل کرتے ہیں کہ وہ شہروں کے اندر پبلک ٹرانسپورٹ کا ایک وسیع  نیٹ ورک پھیلا دیتے ہیں تاکہ عام آ دمی کو سفر کے واسطے سستی ٹرانسپورث میسرہو اور وہ ٹیکسی مالکان یا پرائیویٹ بس اونرز کے ہتھے نہ چڑھیں  اور  ذاتی موٹر کار کو خریدنے کے لئے کسی کے زیر بار بھی  نہ آئیں  یہی وجہ ہے کہ سوشلسٹ ممالک میں آپ کو سرمایہ دارانہ نظام کے داعی ممالک کے مقابلے میں اعلیٰ قسم کا پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم ملے گا۔ان چند ابتدائی سطور کے بعد درج ذیل اہم قومی اور عالمی معاملات پر ایک طائرانہ نظر ڈالنا بے جا نہ ہوگا ایران کے پر امن نیوکلیئر پروگرام کی حمایت کا اعلان حکومت کاایک صائب اقدام ہے‘امریکہ  کے دوغلے پن کی بھلا اس سے بڑی مثال اور کیا ہو سکتی ہے کہ ایک طرف تو وہ اپنے بغل  بچے اسرائیل کو بے پناہ اسلحہ کے انبار لگانے پرکچھ نہیں کہتا‘ پر دوسری طرف وہ ایران  کے  کی اسلحہ سازی پر شور مچاتا ہے۔پاکستان ترکیہ اور آ ذر بائیجان کے درمیان زندگی کے مختلف شعبوں میں تعاون کے معاہدے وطن عزیز کی ٹھوس خارجہ پالیسی کا عندیہ دیتے ہیں‘جو قابل ستائش بات ہے پاکستان اور چین کی وزارت  خارجہ کے درمیان  بڑھتے ہوئے رابطے ایک خوش آئند  امر ہے کیونکہ وقت نے ثابت کر دیا ہے کہ لے دے کر دنیا میں چین ہی وہ واحد ملک ہے کہ جس کی دوستی پر ہم آنکھیں   بند کر کے تکیہ کر سکتے ہیں۔ اگلے روز نریندرا مودی نے اپنی مادری بھوج پوری زبان میں پاکستان کودرج ذیل الفاظ میں یہ کہہ کر جو دہمکی دی وہ اس کی پاکستان کے  خلاف جارحانہ سوچ کی عکاس ہے  وہ الفاظ یہ تھے ”زندگی جیو روٹی کھاؤ‘ ورنہ میری گولی تو ہے ہی“۔ہٹلر اور مسولینی کی طرح اس کا دماغ بھی  پھر گیاہے۔