موت کے سوداگر 

 خودکشی کر نے کی کوئی بھی مذہب یا دنیاوی قانون اجازت نہیں دیتا ‘پر عرصہ دراز سے سوئٹزرلینڈ میں dignitasنامی ایک ہسپتال میں زندگی سے چھٹکارا پانے والے افراد اس کے ذریعہ موت کے منہ میں جا رہے ہیں‘ عام طور پر اس ہسپتال سے وہ افراد فائدہ اٹھا رہے ہیں جو کسی لاعلاج بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں اور ڈاکٹروں نے یہ ڈکلیئر کر دیا ہوتا ہے کہ ان کے بچنے کا ایک فیصد بھی چانس نہیں‘ وہ خود بھی بستر مرگ کی زندگی سے اچاٹ ہوئے ہوتے ہیں اور سسک سسک کر زندہ رہنے کے بجائے ابدی نیند سونے کو ترجیح دیتے اور یا پھر ان کے تمام رشتہ دار ‘دوست سنگی مر چکے ہوتے ہیں اور وہ تنہائی کی زندگی سے تنگ آ چکے ہوتے ہیں ‘سوئٹزر لینڈ کی حکومت نے قانونی طور پر اس قسم کا دھندا کرنے کی اس ہسپتال کو اجازت دے رکھی ہے جو فرد بھی اپنی زندگی سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتا ہے وہ اس ہسپتال میں ایک مقررہ فیس دے کر بکنگ کرا لیتا ہے ‘ ہسپتال والے اس سے ایڈوانس فیس لے لیتے ہیں جس میں کفن دفن کے اخراجات بھی شامل ہوتے ہیں ‘اس کی جان اس طرح لی جاتی ہے کہ پہلے اسے ایک نشہ آ ور شربت پلا دیا جاتا ہے جس سے وہ اپنے حواس کھو بیٹھتا ہے ‘اس کے بعد اسے زہر کا انجکشن دے کر موت کی وادی میں اتار دیا جاتا ہے‘ اب چونکہ اس سے فائدہ اٹھا نے والوں کی تعداد بڑھی ہے اور انگلستان اور فرانس سے کافی لوگ اس مقصد کے حصول کے واسطے سوئٹزر لینڈ جانے لگے ہیں۔
 تو فرانس اور انگلستان کی حکومتوں نے یہ سوچنا شروع کر دیا ہے کہ وہ dignitas کی طرح کیوں نہ اپنے ممالک کو اسی قسم کے خواہشمند افراد کو یہ سہولت قانونی طور پر دے دیں۔