یک طرفہ رویہ اپناتے ہوئے بھارت نے دہائیوں سے جاری پانی کی تقسیم کے تعاون کو بالائے طاق رکھتے ہوئے سندھ طاس معاہدے (آئی ڈبلیو ٹی) کو معطل کر دیا ہے جو پاکستانیوں کے لئے ”لائف لائن“ ہے۔ یہ ایک سوچی سمجھی کاروائی ہے جس کا مقصد پاکستان کی آبی سلامتی کو مفلوج کرنا ہے۔ دریائے چناب میں پانی کی سطح میں کمی، سندھ اور پنجاب میں قحط سالی کے خطرے کے پیش نظر بھارت نے پانی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا انتخاب کیا ہے۔ مودی انتظامیہ کے لاپرواہ اقدامات سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے قدرتی وسائل کو ہتھیار بنانے کے پریشان کن رجحان کی نشاندہی کرتے ہیں اور پاکستان کو اب اس غیر معمولی بحران سے عزم اور تزویراتی وضاحت کے ساتھ نمٹنا ہوگا۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی جارحانہ بیان بازی اور فوجی رویہ، جس کی مثال آپریشن سندور ہے‘ یک طرفہ اور سفارتی تعلقات کو نظر انداز کرنے کی طرف پریشان کن تبدیلی کی عکاسی کرتی ہے۔ آئی ڈبلیو ٹی کی معطلی بھی ضروری وسائل کو ہتھیاروں سے لیس کرنے کی آمادگی کو ظاہر کرتی ہے، جس سے انسانی خدشات میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس طرح کے اقدامات طے شدہ معاہدوں کی خلاف ورزی ہیں اور ان مشترکہ پانیوں پر منحصر لاکھوں افراد کے ذریعہ معاش کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔1947ء میں جب انگریزوں نے برصغیر پر اپنی نوآبادیاتی گرفت چھوڑی تو انہوں نے تقسیم کو اس قدر ناقص کیا کہ اس کی فالٹ لائنیں اب بھی تقریباً دو ارب لوگوں کی زندگیوں کو متاثر کر رہی ہیں لیکن خون میں لت پت نتائج کے درمیان تعاون کی ایک علامت ابھرکر سامنے آئی اور وہ ہے 1960ء کا سندھ طاس معاہدہ۔ ورلڈ بینک کی ثالثی میں یہ دو حریف ہمسایہ ممالک کے درمیان عملیت پسندی کا نادر لمحہ تھا۔ چھ دہائیوں سے زیادہ عرصے کے بعد، بھارت نے امن کے اس نازک ستون کو بے شرمی سے کمزور کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ آئی ڈبلیو ٹی کو ئی مثالی نہیں تھا اور یہ معاہدہ کبھی بھی مساوات کا نمونہ نہیں رہا۔ اس نے مکینیکل ڈویژن اختیار کیا: بھارت نے تین مشرقی دریاؤں (راوی، بیاس، ستلج) پر خصوصی کنٹرول حاصل کیا جبکہ پاکستان کو تین مغربی دریاؤں (سندھ، جہلم، چناب) کے بلا روک ٹوک استعمال کی ضمانت دی گئی۔ پھر بھی اس ناقص فریم ورک کے اندر بھی، یہ معاہدہ نایاب تھا کیونکہ یہ عملی سمجھوتہ دونوں اطراف کی جنگوں، سرحد پار جھڑپوں اور سخت قوم پرستی سے قدرے محفوظ تھا۔ معاہدوں کے قانون سے متعلق ویانا کنونشن (وی سی ایل ٹی) میں ایسی کوئی شق بھی شامل نہیں جسے تعطل کا نام دے۔ بھارت درحقیقت حقیقی معطلی کئے ہوئے ہے جو بین الاقوامی قانون کے تحت صرف باہمی رضامندی سے کی جا سکتی ہے یا اگر معاہدہ اس طرح کی معطلی کی اجازت دیتا ہو۔ آئی ڈبلیو ٹی دونوں میں سے کسی بھی فریق کو اِس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ اپنے طور پر معاہدے کو معطل کرے۔ یہ کوئی معنوی تکرار نہیں بلکہ بین الاقوامی معاہدوں کے ڈھانچے کو نظر انداز کرنے کی ایک سوچی سمجھی چال ہے۔ ایک ایسی چال جس کے پاکستان اور قواعد پر مبنی حکمرانی کے عالمی نظام پر ممکنہ طور پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔بھارت کی ہائیڈرولوجیکل مہم جوئی طویل عرصے سے تشویش کا باعث رہی ہے۔ کئی سال سے نئی دہلی نے آئی ڈبلیو ٹی کے تحت پاکستان کو دیئے جانے والے دریاؤں خاص طور پر چناب پر متعدد ڈیم اور بیراج تعمیر کر کے اپنے اپنے غلبے کو ہتھیار بنایا ہے۔ یہ ڈھانچے اسٹریٹجک لیور ہیں جو پاکستان کو اپنی مرضی سے پانی کی فراہمی روکنے یا مون سون کے موسم میں سیلاب لانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ قلیل مدت میں، پانی کے بہاؤ میں انجینئرنگ ہیرا پھیری سے پاکستانی شہروں میں پانی بھرنے یا انہیں ضروری پانی کی قلت کا خطرہ ہے۔ طویل مدت میں، اس کا مقصد پورے خطے کی ماحولیاتی اور زرعی قابلیت کو نئی شکل دینا ہے۔ یہاں وسیع تر ایجنڈے کو دیکھنے کے لئے کسی کو بہت زیادہ غور کرنے کی ضرورت نہیں۔ بھارت کی جانب سے پاکستان کے پانی کے بہاؤ بالخصوص دریائے چناب میں مسلسل مداخلت آئی ڈبلیو ٹی کے آرٹیکل تین کی دوسری شق کی صریح خلاف ورزی ہے جو واضح طور پر اس طرح کی مداخلت کی ممانعت کرتا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ بھارت نہ صرف عالمی معاہدے کی خلاف ورزی کر رہا ہے بلکہ بین الاقوامی ذمہ داریوں کی بھی کھلم کھلا خلاف ورزی کر رہا ہے۔ اگر بھارت پاکستان کے ساتھ عالمی بینک کی ضمانت والے معاہدے سے دستبردار ہو سکتا ہے تو اسے گنگا کے ساتھ بنگلہ دیش کے ساتھ ایسا کرنے سے کون روک سکتا ہے؟ یا مہاکالی کا معاہدہ جو اُس نے نیپال کے ساتھ کر رکھا ہے؟ برصغیر، جو پہلے ہی سرحدی تنازعات اور قوم پرستی کی شکایات کا گڑھ بنا ہوا ہے، اس طرح کی قانونی ناانصافی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر عمران خالد۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو اب وقت آگیا ہے کہ اسلام آباد اپنے معمول کے سفارتی جمودکو ترک کرے۔ صرف مذمت اور شائستہ بیانات کافی نہیں ہوں گے۔ پاکستان کے پاس قانونی راستے بھی موجود ہیں۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل اکیاون کے تحت اگر پاکستان کی بقاء خطرے میں ہے تو اسے اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ انڈس سسٹم پاکستان کو 90 فیصد سے زیادہ پانی فراہم کرتا ہے، بھارت کی جانب سے پانی کو ہتھیار بنانے کو معقول طور پر وجود کے خطرے کے طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔ اگر بھارت تنازع کے دوران اس ہائیڈرو تسلط کو بڑھاتا ہے، جیسے نیلم جہلم منصوبے پر بمباری کرکے تو پاکستان کا فوجی کاروائیوں کی حمایت میں استعمال ہونے والے ڈیموں کے خلاف جوابی کاروائی کرنے کا حق نہ صرف قانونی بلکہ ضروری ہوجاتا ہے۔ جیسا کہ اضافی پروٹوکول ون کے آرٹیکل چھپن کے تحت بیان کیا گیا ہے، اس طرح کے بنیادی ڈھانچے کو سخت شرائط کے تحت جائز فوجی ہدف سمجھا جاسکتا ہے۔ پاکستان ایک اور جنگ کو ہوا دینے کی کوشش نہیں کر رہا ہے لیکن اگر نئی دہلی معاہدے کے فریم ورک کو کمزور کرنا جاری رکھتا ہے اور اگر بین الاقوامی برادری مداخلت کرنے سے انکار کرتی ہے، تو موجودہ راستہ ہمیں مسلسل محاذ آرائی کی طرف لے جائے گا۔