میں سوچ رہا ہوں کہ یہ کہیں سازش تو نہیں‘کیونکہ پورے ارض وطن میں ٹڈیوں نے یلغار مچا رکھی ہے یہ تو سال پہلے کی مصیبت ہے جو ٹل نہیںرہی جیسے کورونا کے ٹل جانے کےلئے بھی ہمارے پارلیمان والوں نے سال بھرکا ٹوٹل لگایا ہے ‘اس وائرس نے تو سال بھر رہنا ہے مگر ٹڈی کے لشکر نے کب تک اودھم مچائے رکھنا ہے اسکا ٹائم فریم کوئی دے نہیں سکتا۔ کیونکہ سال تو ہو گیا ہے ‘اسلئے سازش کا سوچا ہے کہ جیسے چین کے شہرووہان میں لیبارٹری میں کورونا کا خمیر تیار کیا گیا تھا اور اس کو دنیا بھر میںپھیلا دیا گیا‘یہ میںنہیںکہتا امریکاکے صدرِ محترم ڈونلڈ ٹرمپ کہتے ہیں‘پھر چین کہتا ہے امریکا کا ایک فوجی یہ وائرس لے کر پہلے پہل دسمبر میںووہان آیا تھا جس نے اس کو یہاں لوگوںسے ہاتھ ملاکر اور محفلوں میں شرکت کرکے پھیلا دیا تھا بہرحال کون سچ بول رہا ہے کون الزام لگا رہاہے پھر سوال یہ ہے کہ یہ لیبارٹری میں بن بھی سکتا ہے کہ نہیں‘ مگر مجھے پچھلے زمانوں کے خادم اعلیٰ یادآ گئے جنوںنے ڈینگی وائرس جب پھیلنے لگا تو کہاکہ پنجاب کےساتھ سازش کی گئی ہے‘ہم اس کا پتا لگا رہے ہیں کہ کس نے ہمارے ساتھ ان گرمیوں کے موسم میںڈینگی کے مچھروں کی شرارت کی ہے وہ بھی اس طرح کہ ٹرک بھر بھر کے مچھروں کے لاکر پنجاب کی سرزمین پر چھوڑ دیئے ‘تاکہ مچھرنسل بڑھائیں اور ہزاروں کے لاکھوں اور لاکھوں کے اربوں ہو کر پورے پنجاب کو اپنے پتلے سوکھے سے پنجوں میں جکڑ لیںاور ہسپتال کے ہسپتال ڈینگی کے مریضوں سے بھر جائیں‘باواجی اسوقت ہمارے وطن پر ٹڈیاں حملہ آور ہیں‘پھر اس طرح کہ تین صوبوں میں تو ان کی فتوحات کا سلسلہ جاری ہے‘ہاں یہ پچھلے سال ڈی آئی خان تک محدود تھیں ‘مگر اب کے لگتا ہے کہ یہ وہاں دریا کراس کر کے ہمارے پشاور کے علاقوں کی جانب آئیں گی‘ کیونکہ دنیا بھر میں موسم کی تبدیلیاں جو رونما ہو رہی ہیں یہ انہیں کی وجہ سے ایسا ہے ۔الٹے سیدھے کام ہو رہے ہیں جہاں بارشیں نہ تھیں وہاں بارشیں اور مسلسل بارشیں ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ پہلے ٹڈی کا نام ہی سنا تھا مگر اب کے تو اس کے کام بھی دیکھ لئے ہےں ‘یہ سعودیہ سے ایران پھر وہاں سے بھارتی علاقے راجستھان کے صحرا اور پھر وہاں سے پاکستان کے علاقے کی سرحد سندھ کے صحراتھر سے ہو کر کراچی اور پھر پورے پاکستان میں پھیل رہی ہیں ‘یہ موسم کے جو تبدیلی کے کوڑے ہمیں لگ رہے ہیں انہی کی وجہ ہے ‘پہلے تو ٹڈیوں کے ان کے پانی پت اور راجہ پورس کے جیسے حملوں کی بابت کانوں میں کوئی افواہ اڑکر بھی نہیں گئی تھی کورونا کے ہاتھوں پہلے ہی ہم اپنے زخموں پر مرہم رکھ رہے ہیں اور دوسری طرف اب ٹڈیوں کی وجہ سے کہ پورے کھیت کے کھیت چٹ کر جاتی ہیں قحط کا بھی سن رہے ہیں‘یوں کہ اگر ان کے حملوں کو روکانہ گیا تو جو روٹی ہماری کورونا کے ہاتھوں پہلے ہی سوکھ چلی ہے وہ تو اب کے یوں ناپید ہو گی کہ ہم راتوں کو انتظار کریں گے کہ چودھویں کاچاند نمودار ہو اور ہرنگاہ روٹی کو آسمان پر چمکتا ہوا دیکھ کردل خوش کرے ‘کوروناسے تو لوگ بچ بھی رہے ہیں مگر روٹی کے نہ ہونے سے مریں گے تو کون پوچھے گا پہلے کہتے تھے کہ ’کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ‘۔ یہ کہاوت کسی کمزور کے بارے میں تھی جو کمزور ہونے کے باوجوداکڑخانی کرتا ہے ‘پدی اصل میںچڑیا سا پرندہ ہے جسے پشاور کے پشوری چمونا بھی کہتے ہیں‘اب چمونا گائے دنبہ تو نہیں یا مرغ نہیں ہے کہ اس کو حلال کریں اور پکا کراس کا سالن تیار ہوپھراس کی بوٹیاں بھنبھوڑ کر کھائی جائیں‘سو پدی کو ذبح کرنے سے فائدہ کیا۔ اس کو چھوڑ دو یہ کیا پھنے خانی کرے گا کرنے دو‘مگر ہمارے بھائی بند اس کو بھی تو نہیںچھوڑتے‘۔
پیاری آوازیں نکالنے والے پدی کو کھا جاتے ہیں۔ ٹڈی کو سعودی عرب میں ہر طرح سے کھایا جاتا ہے ۔فرائی کر کے روسٹ کر کے اور سالن میں ۔ تو اگر ہم اس ٹڈی دل پر انعام مقرر کر دیں اس دَل یعنی ٹڈیوں کے لشکر میں ہزار ٹڈیاں لانے والے کو پچاس روپے ملیں گے تو دیکھنا پل کے پل میں یہ ختم ہو جائیں گی‘ جیسے پشاور میں چوہوں کو زندہ یا مردہ حالت میں لانے والے کو انعام دینے کی بات ہوئی تھی اور صرف بات ہی ہوئی تھی کیونکہ یہ لوگ چوہوں کو ختم نہیں کر سکے اور نہ ڈینگی کو تو کوروناکو کیسے ٹڈی دل سمجھ کر انجام تک پہنچائیں گے۔ صحت کے ایک وزیر نے کہا تھا کہ ٹڈیوں کا علاج ہے کہ ان کو کھاناشروع کر دیں ‘مگر حکومتی اہلکاروں کے منہ کی ہوا آسمانی فضا کا رزق بن گئی‘چین والے کتے بلیاں اور چمگادڑیں چوہے ہزاروں سالوں سے کھا رہے ہیں ‘پھراب کہیں جا کر ان کے ہاں چمگادڑوںسے کورونا وائرس نکلا ہے جو انہیں چینیو ںکا کھاگیا ہے اور ان کے ذریعے پوری دنیا میں پھیل گیا ہے ‘مگر چونکہ ٹڈیاں لوگ کھا سکتے ہیں سو ان کو جال لگا کر پھنسائیں اور پکڑ کر کھائیں تب ہی ان کا علاج ہو سکتا ہے ۔