لگتا ہے وہ وقت دور نہیں جب پا¶ں میں جوتیاں پہننا بھی ایک عیش تصور کیا جاتا ہو ۔کیونکہ بازار میں جاکر آپ اگر زنانہ جوتیاں خریدتے ہیں تو آپ کو کسی قسم کی رعایت نہیں ملے ۔ اگر آپ کہہ دیں کہ پلاسٹک کی معمولی کوالٹی کی ہوں تو اس میں کسی قسم کی کوئی چھوٹ نہیں ۔آپ باہر بائیک پر انتظار کرتے رہ جائیں گے اور خاتونِ خانہ پسینوں میں شرابور دکان دکان گھوم کر بہت کم بھی ہوں تو پانچ سو روپے میں کوئی نہ کوئی سپاٹے خرید لائیں گی۔ پانچ سو آٹھ سو ہزار کی بات کریں ۔ پھر بہتر ہوگا جاتے ہی اگر پہلے والے دکاندار کے پاس یہ پیزار پسند آ جائیں تو خرید فرما لیں ۔کیونکہ یہ تو طے ہے کہ کوئی بھی پاپوش کسی بھی دکان یا ٹھیلے والے سے لیں تو ایک ہی ریٹ چل رہا ہوگا۔یہاں مہنگے جوتے لینے سے تو کہیں بہتر ہے کہ جو آپ کو گھر میں مہیا ہیں ان کو موچی سے سلوا لیں اور گزارا لیں ۔جوتے فروخت ہوگئے تو ہوگئے ورنہ دکاندارجوتیوں میں بیٹھ بیٹھ کر شام کو دکان بند کرکے گھر واپس لوٹ آئیں گے۔عام آدمی کے تو حالات ایسے ہی ہیں ۔جن کوان باتوں سے اختلاف ہے تو وہ عام آدمی نہیں اچھے خاصے کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھتا ہے ۔وہاں سے جب ہم واپس لوٹے تو سر کے بڑھے ہوئے بال تنگ کر رہے تھے سوچا کہ بال بنوا لوں اور علاقے کے حجام کی دکان پرپہنچا ۔۔اتنے میں بچی آئی اور اس نے حجام سے پوچھا کہ چھوٹا بچہ ہے اس کے بال کاٹنے کے کتنے پیسے لیں گے ۔حجام نے الٹا جواب میں سوال کر دیا کہ بچہ روتا تو نہیں ہے ۔اس پر ہم نے لقمہ دیا کہ نہیں تو ستر روپے اور اگر روتا ہے تو پھر سو روپے ہوں گے ۔کیونکہ حجام کو اس قسم کے کیس میں بہت دشواری پیش آتی ہے۔۔میں نے پوچھا آپ کا ریٹ فکس تو نہیں ۔کہنے لگا سر جی سو روپے کے توٹماٹر بھی نہیں آتے۔ شعر یاد آیا کہ ”ذکر جب چھڑ گیا قیامت کا ۔ بات پہنچی تیری جوانی تک“۔جوانی سے یہاں شاعر کی مراد ٹماٹر ہے ۔کیونکہ جب بھی مہنگائی کی بات ہوتی ہے بات وہی جا کر سبزی سے ہوتے ہوئے ٹماٹروں کے نرخ پر از خود پہنچ جاتی ہے۔ کیونکہ وہ کون سی ہنڈیا نہیں جس میں ٹماٹر نہ پڑتے ہوں ۔اگر ٹماٹر قابو سے باہر ہوجائیں عوام کے پاس دوسرا نسخہ ہوتا ہے کہ ٹماٹوکیچ اپ کا پا¶چ لے کر ہانڈی میں ڈالتے ہیں۔پھر ٹماٹر اور سبزی تک بات کیوں نہ پہنچے گی کہ گوشت تو عام آدمی کے بس کی بات نہیں ہے او رنہ ہی مرغی کا گوشت ہی کنٹرول میں ہے ۔آج ایک نرخ کل دوسرا ریٹ۔جیسے چیونٹی کے پر نکل آتے ہیں اسی طرح مرغی کے پر نکل آتے ہیں۔مگر آپ سوچیں گے کہ مرغی کے تو پر آل ریڈی ہوتے ہیں پھر ان کے تذکرہ کرنے کا مذکور کیا۔جی ہاں آج کل مرغی نے اپنے اوپر کبوتر کے پر و بال اوڑھ لئے ہیں۔ اس لئے آج یہاں کل وہا ں۔اب گائے تو گائے ہے اڑنے کے لئے ڈائنوسار کے پر ہوا کرتے تھے۔اب تو ڈائنوسار نہیں رہے ۔سو موجودہ گائیں بھینسیں ہیں جن کو مہنگائی کے پر لگے ہیں مگر کمال کہ ان کے پر نظر نہیں آتے۔ورنہ تو بھین سے اڑ کر ڈائنوسار کی مانند آکر گھروں کی منڈھیر پر بیٹھ کر کسی گھرکی تباہی کو بنیاد سے نہیں بلکہ چھت سے شروع کرتے۔ ویسے جہاں تک چینی کی گرانی ہے تو اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں بلکہ حیرانی تویہ ہے کہ ہم لوگ چینی بھی کتنی پیتے ہیں ۔چینی اب اتنی ارزاں بھی تو نہیں حالانکہ ملک چین سے نہیں آتی ہمارے ہاں ہمارے اپنے ہی گنے سے بنتی ہے اور ٹنوں کے حساب سے سینکڑوں ہزاروں ٹرکوں پر لاد کر بیچی جاتی ہے او رباہر کے ہمسایہ ملک کو بھیجی بھی جاتی ہے۔مگر چند دن پہلے اس کی برآمد پر پابندی لگی توچینی کے نرخ بھی گرنے لگے‘مگر یہ اشیائے صرف کے جو پر نکلے ہیں وہ ہمارے سر کے بالوں کی طرح اتنے ب©ڑھنے لگے ہیں کہ ہتھ گاڑی والے کے پاس سے گزر جانے ہی میں عافیت ہے کہ گھر آکر اس پر دو آنسو توبہاسکیں اگر باہر پچاس روپے کا چائے کا کپ نہ پی سکیں تو گھر میں سستے داموں چائے کی پیالی تو نصیب میں ہو۔چین سے تو ہم ہو آئے ہیں ‘جانے یہ چینی کی گرانی ہمیں کس ملک تک پہنچائے گی۔