اتوار کا دن تھا ۔ خوب شادی بیاہ اور خوشی کی دیگر تقاریب ہوئیں ۔پُر تعیش بھی نیم عیش کوش بھی تھیں ۔ہمارے ہاں تو بیاہ اور خوشی کی دیگر تقریبات میں شادی والوں کا اچھا خاصا خرچہ ہو جاتا ہے ۔زندگی بھر کی جمع پونجی خوشی کے میلے کو اکٹھا کرنے میں صرف ہو جاتی ہے ۔۔پھر آج کل لاکھ کی حیثیت ہی کیا ہے۔ لیکن اگر بفرضِ محال لاکھ بھی خرچ کیا تو لاکھ بھی واپس آ سکتا ہے اور اس کے اوپر لاکھ اور بھی منافع ہو سکتا ہے۔صاحبو سیدھی سی بات ہے اکثر لوگ تو خالی ہاتھ نہیں جاتے ۔ مرد حضرات باراتوں ولیموں میں تو گھوم پھر کر واپس ہو لیتے ہیں مگر خواتین کے معاملے میں بہت ٹینشن ہوتی ہے کہ وہ کچھ نہ کچھ لے کر جانا چاہتی ہیں۔اگر زور نہ ہو تو پھر بھی مرد کے کھیسے سے کچھ نہ کچھ حاصل کر کے پروگرام میں جا کر وہا ںکے بڑوں کو نقدی تھما کر آ جاتی ہے ۔کم سے کم کا تو پتا ہے مگر زیادہ سے زیادہ کا پتا نہیں ۔کوئی تو لڑکے کی ماں کی ہتھیلی پرپانچ ہزار کا نوٹ رکھ دیتی ہے پھر کوئی اس سے زیادہ بھی پچاس ہزار نثار کر کے آ جاتی ہیں ۔یہ تو تعلقات کی نوعیت پر منحصر ہے ۔اگر بہت قریبی رشتے ہوں تو وہاں خرچہ زیادہ کرنا پڑتا ہے۔مگر وصولی اچھی خاصی ہو جاتی ہے ۔بصورت ِ اشیا اوربصورت نقد دونوں طرح سے خوشی والا گھر بھر جاتا ہے۔پھر صرف لینا ہی تو نہیں ہوتا ۔کل کو دینا بھی ہوتا ہے۔جن کو دیا وہ اگر کل آپ کی خوشی میں آئیں گے تو کم از کم برابری کی بنیاد پر تو کچھ دیں گے۔ویسے آج کل ڈالروں میں دیں تو اچھا ہے کہ ڈالروں کا ریٹ اوپر جا رہا ہے۔پان سو دیا تو کل کلاں سالوں بعد خوشی ہوئی تو جواب میں پان سو دینا بہت برا لگے گا ۔ایک ماموں نے برسوں پہلے جب ڈالروں کا یہ سیاپا نہ تھا تو اپنے بھانجے کو ڈالروں والا پھولوں کا ہار پہنایا تھا ۔اس وقت تو ان کی یہ ادا ہماری سمجھ میں نہ آئی کہ یار یہ کیا نخرہ ہے ۔مگر اب ان کی دانش پر دل عش عش کر اٹھتا ہے بلکہ دل باغ باغ ہوا جاتا ہے کہ اس وقت بھی ان کی کیا سوچ سمجھ تھی ۔ظاہر ہے کہ اب اگر خدا ان کو خوشی دے تو ڈالر کا کینٹھا پہننے والا ڈالر نہ سہی مگر ڈالر کے برابر تو کچھ نہ کچھ برابری کرنے کی کوشش کرے گا۔بلکہ اس حد تک افرا تفری ہے کہ کوئی کسی کو قرض دیتا ہے تو انکار نہیں کرتا ہاں دیتا ہوں مگر ڈالروں میں دوں گا اور واپس بھی ڈالروں میں لوں گا ۔اس پر لینے والا اپنی جگہ پریشان اور فکرمند ہو جاتا ہے کہ اگر پان سو ڈالر لئے توواپسی پر پان سو نہیں پاکستانی ہزاروں میں ادائیگی کرنا پڑے گی۔اس لئے لینے والا پہلے گھر جا کر سو بار سوچتا ہے کہ اب کیا کروں ۔بلکہ جب ڈالر ایک دن میں دس روپے بھی مہنگاہو تو پاکستانی قرضوں میں ہزاروں اربوں کا اضافہ خواہ مخواہ ہو جاتا ہے۔پھر شادی والے گھر میں تو نقدی وصول کرنے کے علاوہ اشیائے صرف کی شکل میں بھی وصولیابی ہوتی ہے ۔کبھی کولڈ ڈرنک کے بڑے ماٹ پلاسٹک میں بندھے ہوئے آ رہے ہیں اورکبھی کپڑوں کے بیش قیمت سوٹ وصول ہو رہے ہیں۔وہی بات کہ اگر لاکھ روپیہ خرچ ہوا تو پچاس تو نکل ہی آئے گا اور ممکن ہے کہ پچاس سے زیادہ ہی مٹھی میں آ جائے۔ویسے اس میں بچت کرنے کا انداز بھی اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے ۔خوانچہ روٹی ہو تو نام بڑے او ردرشن چھوٹے ہوں تو خوانچہ سجانے میں بھی شادی والے ڈنڈی مارتے ہیں ۔ایک چیزکم کرکے دوسری طرف وہی چیز بڑھا دیتے ہیں۔یعنی چاولوں میں گوشت کا آئیٹم اڑا دیں گے اور جو علیحدہ چکن خوانچہ میں ہوتا ہے وہی اٹھا کر چاولوں کی غوری میں سالم ڈال دیں گے ۔تاکہ گوشت کی کمی کا احساس نہ ہو ۔فیرنی اور مربہ اڑا کر وہاں حلوہ رکھ دیںگے۔جہاں تک دینے دلانے کا معاملہ ہے تو اب یہ اتنا راسخ ہو چکاہے کہ خود شرکت کرنے والے کو بنا کچھ دیئے اپنی جان بری لگتی ہے ۔مگر بعض خوشیاں ایسی ہوتی ہیں کہ وہاںہر حالت میں شرکت کرنا پڑتی ہے ۔ایسے میں اس مہنگائی کے دور میں شادی بیاہوں میں شادی کے گھر والوں کو دل بڑا کرنا چاہئے کہق اگر جو کوئی کم سے کم بھی کچھ دے اس کو ہنسی خوشی قبول کرلیں یا اگر کوئی کچھ لے کر نہ آئے تو پلیز اس کے پیچھے باتیں نہ بنائیں ۔