خاتونِ خانہ گھر کا راشن لینے کے لئے قریب کے جنرل سٹور پر جاتی تھیں۔ آہا کیا زمانہ تھا کیا یاد آگیا۔واہ مہینہ کا سودا سلف ایک ہی بار لے آتیں اور خوشی خوشی دن گزر جاتے ۔کہیں مہمان آگئے تو وہ بھی اسی راشن میں نپٹ جاتے یا اگر اضافی اشیاءدرکار ہوتیں تو گاہے دو تین سو روپے زیادہ خرچ کر کے آ جاتیں۔اب تو وہ ایام یاد آتے ہیں تو کلیجہ جیسے پھٹ کر سو ٹکڑے ہو جاتا ہے ۔پھر ہر ٹکڑے میں اپنی ہی مکمل مسکین شکل پارہ پارہ ہو کر نظر آتی ہے ۔اب کہاں اب تو ایک ٹائم کھا¶ اور دوسرے وقت فاقہ کی نوبت آ جاتی ہے ۔روٹیاں لا¶ تو سوچ سمجھ کر لا¶ ۔پہلے روٹیاں لاتے تو بس اندازہ سے لے آتے اب تو گھر سے پوچھنا پڑتا ہے کہ رات وقت ہے کوئی کھاتا ہے کوئی نہیں کھاتا۔ اس لئے ہر ایک کو آواز دینا ہوتی ہے تم کھا¶ گے تم کھا¶ گی ۔ کیونکہ اگر کسی نے نہ کھائی تو دوسرے دن صبح تک روٹی اس قدر سخت ہو جاتی ہے جیسے روٹی کے پلاسٹک کے ماڈل بنا کر لائے ہوں ۔جو راشن گھر میں ڈالتے اس میں تیل کا بڑا ڈبہ بھی ہوتا لیموں کے پا¶ڈر کا الگ سا پا¶چ ہوتا ٹینگ کا بڑا ڈبہ ہوتا کرارے چپس آتے سوکھے دودھ کا بڑا پیک جو مہینہ نہیں تو سترہ اٹھارہ دنوں کے لئے کافی ہوتا اس میں کلو سرف بھی ہوتا ۔ ہمیں اس لئے سب کچھ یاد ہے کہ سکے ہماری جیب سے جاتے ۔بقول مومن خان مومن“ مجھے سب ہے یاد ذرا ذرا تمھیں یاد ہو کے نہ یاد ہو “۔یہ سارا راشن بعوض پانچ ہزار روپے سکہ رائج الوقت لے کر آتیں۔حالانکہ ان میں ڈنڈی بھی ماری جا سکتی تھی لیکن اگرڈنڈی مقصود ہو تو اتنی برکت کا زمانہ تھا کہ چھوٹے موٹے خرد برد کا پتا بھی نہ چلتا ۔پھر وہ غبن کہہ لیں گھر کے فائدے ہی کے لئے ہوتا کہ آڑے وقت میں جب جیب میں کچھ نہ ہوتا تو خاتون اندر کچن کے نہاں خانوں سے کچھ نہ کچھ نکال کر ہانڈی روٹی کا کوئی راستہ بنا لیتی اور اگر کچن کے خالی ڈبوں کے ہوتے ہوئے مہمان آ جاتے تو وہ کہیں نہ کہیں سے بچایا ہوا سامان نکال کر ان کے سامنے پکا کر لا حاضر کرتیں۔اب تو ایسی ہوائیں چل رہی ہیں اور اتنی کہ اس آندھی سے لوگوں کے گھر ہی اجڑ رہے ہیں۔اب دو ایک آئیٹم لا ¶ تو تین ہزار گئے ۔پھر مزید چیزوں کے لئے سوچو کہ کہاں سے کاٹ کر کے سامان پورا کرنا ہے۔ان دنوں ویسے بھی سامان نے پورا نہیں ہونا۔سو صبر شکر کے ساتھ وقت گزاری کرنا ہوتی ہے۔یہ بھی معلوم ہے کہ اس یاد سے دو ایک سال پہلے پورے ماہ کا راشن پندرہ سو دے کر آجاتا تھا ۔ اب تو حال یہ ہے کہ اچھی بیکری پر جا¶ کہ گھر میں مہمان آگئے تو اچھی بیکری ہو یا پھر عام شام سہی مگر نوٹوں کے پیکٹ ہی دینا پڑتے ہیں۔مہمان ہوں تو پندرہ سو روپے کے شاپر میں سامان لینا پڑتا ہے ۔وہ بھی شوکیس میں سجی ہوئی اشیائے خورد ونوش بھی دو دو کر کے اٹھانا پڑتی ہیں۔ اب وہ بے حساب خریداری کے زمانے گائے کھا گئی۔فیض کا شعر یاد آیا ہے ” کر رہاتھا غمِ جہاں کا حساب ۔ آج تم بے حساب یادآئے“۔سوچتا ہوں کیا وہ زمانہ لوٹ کر آئے گا۔اب تو بیکری سے ون بائٹ چکن پیٹس تیس روپے کا ملتا ہے ۔نہیں بلکہ ملتا تھا ۔ون بائٹ مطلب پورا پیٹس منہ ڈالو تو سامنے والے کو پتا ہی نہ چلے کہ یہ کچھ کھا رہاہے۔وہ ون بائٹ دانتوں کے ایک ہی بار چبانے سے معدے میں خود کار طریقے سے اُتر جاتا ہے۔صاحبو ہم بیکری پر گئے اور واپس آ گئے کہ اس ون بائیٹ سے تو ساتھ والی بیکری کا تیس روپے کا سموسہ اچھا ہے کہ چلو بندہ کھاتے ہوئے چار پانچ ٹکروں میں کھائے گا ۔پانچ سموسے لئے اور ساتھ میں ٹماٹو کیچ لینا چاہا تو کہا یار وہ ٹماٹو کیچ اپ بھی دینا اس نے دے مار چا رسو روپے والا پا¶چ اٹھا لیا۔ہم نے گھبراہٹ میں جلدی سے کہا نہیں نہیں وہ ساشے یار جو آپ مفت میں اس مہنگے سودے میں ڈال دیتے ہیں۔وہ چکن پیٹس جس کا ذکر ہوا وہ اب چالیس کا تھا جو ہم نے نہیں لیا مگر اندازہ ہے کہ چونکہ دو ایک دن گزر گئے ہیںاب پچاس کا ہوگا۔پھر بڑا چکن پیٹس جو ساٹھ کا دے رہے تھے وہ اسی کا ہوگیا جس کے بارے میں گمان کہتا ہے کہ چونکہ اب دو دن ہو چلے ہیں اس لئے اب وہ ایک دانہ چکن پیٹس جس میں چکن کا ذائقہ ہوتا ہے معلوم نہیں چکن ہوتا بھی ہے کہ نہیںاب ایک سو پچاس کاہو گا۔بازار جاتے ہوئے اب تو ڈر لگتا ہے ۔دکانوں پر اس طرح گھومتے ہیں کہ عاجزِ اور لاچار آدمی ایک دکان سے ریٹ معلوم کر کے شک کرے اور دوسری دکان کی سیڑھیا ںچڑھ جائے۔