مگر ایک بات ہے کہ ریلوے سٹیشن بہت خراب جگہ ہے ‘کبھی کبھی جدا ہو کر ہزار میل دور جانے والے مہمانوں کو دیکھ کر یہاں بندے کی چیخیں نکل جاتی ہیں‘شاید وہی یاداشت کا عمل ہو کہ بندہ بعد میں بھی اسی دکھ بھری یادوں کو تازہ کرنے کےلئے اسی سٹیشن پر اکیلا ہی چلا جاتا ہے جہاںسے اسکے اپنے اس سے بچھڑے تھے‘آج کل بسوں نے ریل کے سفر کا مزا خراب کر دیا ہے ‘کراچی تک چلے جا¶ ایک ہی بس ہے اور پشاور سے بائیس گھنٹوں کی مسافت کے بعد وہاں اُتر جا¶‘ پھر تو کون اور میں کون ‘کوئی کسی کی پروا بس کے اندر بھی ایک دن او رایک رات میں نہیںکرتا تو بس سے اُتر کر کون کس کا آشنا‘مگر اس کے باوجود ریل کا سفر کرنےوالے تو پشاور سے لاہور تک بھی ریل ہی کے ذریعے جاتے ہیں‘ایک تو بس میں بیٹھ بیٹھ کر پا¶ں سوجھ جاتے ہیں۔کہیں گھومنے پھرنا تو کیا اٹھ کر کھڑے ہونے کا موقع نہیں ملتا کہ بندہ ٹانگیں سیدھی کر کے اپنی تھکن اتارے ‘ اسلئے سیٹ پر بیٹھ بیٹھ کر پا¶ں لٹکے رہنے سے پا¶ں میں سوجن پیدا ہو جاتی ہے‘جب اپنی منزل پرجا کر اُتریں گے تو ایک دن بعد سوجن بھی اُتر جاتی ہے ۔شوگر کے مریض کو چونکہ واش روم کی حاجت زیادہ ہوتی ہے اس لئے بسوں والے ہر دو گھنٹے کے بعد بس کھڑی کرنے سے انکار بھی کرتے ہیں اور اگر روک لیں تو برا بھی مناتے ہیں۔ پھر ایک بس میں زیادہ مریض ہو سکتے ہیں۔لہٰدا ایسے لوگ ریل میں سفر کرنے میں سہولت محسوس کرتے ہیں ۔لیکن جو عرصہ بیس تیس سال سے پشاور کراچی آتے جاتے ہیں وہ بسوں کے بجائے ریل ہی کو پسند کرتے ہیں ۔کیونکہ ریل میں جلدی کا کام نہیں ہوتا ۔بندہ آرام سے اور ریلیکس ہو کر بیٹھتا ہے اور پھر مزید یہ کہ ریل کم از کم دو گھنٹے تو پہنچنے میں ضرور دیر لگاتی ہے ۔پھر اس سے زیادہ وقت بھی لگاتی ہے ۔بس کی بہ نسبت ریل میں بہت سیر تماشا ہوتا ہے۔بندہ آرام کرتا ہوا پہنچتا ہے ۔بلکہ کسی سٹیشن پر ریل گاڑی رکے تو وہاں تھوڑی دیر کو اُتر کر یونہی نلکہ پر سے منہ ہاتھ دھو لیتا ہے‘ تقریباً ہر بڑے شہر کی سیر کر تا ہوا پہنچتا ہے۔پھر بس تو جنوبی اضلا ع کی طرف سے جاتی ہے ۔پھر بس کے شیشے بھی بند ہو تے ہیں‘اندر دم گھٹتا ہے ۔مگر ریل کی کھڑکیاں کھلی ہوتی ہیں تازہ ہواآ رہی ہوتی ہے۔آدمی سیر کرتا ہوا بڑے مزے اور آرام سے اپنی مسافت کے اختتام تک پہنچ جاتا ہے ۔وہا ںپہنچ کر پہچانا ہی نہیں جاتا ۔ ہزار میل کی دھول مٹی گردو غبار اس کے چہرے پرتھپا ہوتا ہے جیسے اس نے کوئی مٹیالا پا¶ڈر لگایا ہو ۔ یہ تو وہ خود اگر سٹیشن پر پہنچ کر اپنے رشتہ داروں کو ہاتھ نہ ہلائے تو اس کو فوراً پہنچاننا مشکل ہو جاتا ہے ۔جو اپنے مقررہ سٹیشن پر پہنچتے ہی وہ اتنے تھکے ہارے ہوتے ہیں کہ دو دن تو اپنے عزیزوں کے گھر میں خود کو ریل میں ہلتا ہوا محسوس کرتے ہیں ۔بس کا سفر حوصلہ مند لوگوں کے لئے اچھا ہے ۔خواہ لاہور تک کاہو ۔کیونکہ بندہ اس سے پہلے کہ تھک جائے اپنی منزل تک جا پہنچتا ہے۔مگر ریل میں لیٹ کر سفر کرنے کا مزہ او رہے ۔اوپر برتھ پر چڑھ کر سو جا¶ ۔شام کو گھر والے اٹھا دیں گے ۔ایک گھر کا سا ماحول بن جاتا ہے۔آپ یقین کریں بس اور ریل میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔کیونکہ اگر ایک ہی کیبن کے چھ ٹکٹ اپنے ہی ہوں تو بس ایک چادر برتھ کے ڈنڈوں سے باندھ دو اندر ایک کمرے کا گھر بنا دو ‘ پھر مزے سے اوپر والی برتھ پر ساتھ لگی سیڑھیوں سے چڑھ جائیں یا نیچے والی برتھ کھول لیں ۔بلکہ اوپر والی برتھ پر لیٹ کر ساتھ والے کیبن کی برتھ پر لیٹے ہوئے فرد سے ہم کلام ہوکر گپ شپ میں اچھا وقت گزر جاتا ہے‘مگر یہ ساتھ اس وقت پھیکی پڑنے لگتا ہے جب ان کا ایک ہی سٹیشن قریب ہوں‘ یہ پھر ایک دوسرے کو نہیں جانتے اور اپنا اپنا سامان اکٹھا کرنا شروع کر دیتے ہیں۔پھر جب ریلوے سٹیشن وہ من چاہی منزل آ جاتی ہے تو وہاں اُتر کر ایک دوسرے کو خدا حافظ کہتے ہیںاور اپنے اپنے مہمانداروں کے ساتھ ہو لیتے ہیں۔پشاور تا کراچی جاتے ہوئے یا لاہور تک پہنچتے ہوئے آج بھی ریل کے سفر کااپنا ایک مزاہے۔ہم تو کبھی جی چاہے تو پرانی یادوں کو تازہ کرنے کےلئے پشاور سے ٹکٹ کٹوا کر نوشہرہ تک چلے جاتے ہیں اور پھر راستے میں ریل کی چھک چھک کے پرانے والے مزے لے کرواپس اسی سٹیشن پرسے ٹکٹ لے کر پشاورپہنچ جاتے ہیں۔ ہاں وہاں چائے پیتے ہیں یہاں وہاں گھومتے ہیں ۔یہاں بینچ پر بیٹھ کر چائے پینے کا اپنا ہی مزہ ہے جس کا ذائقہ اسی کو معلوم ہے جو ہماری طرح بچپن سے پچپن تک ریل کے سفر کے عادی ہیں۔بلکہ ہمارے ایک کزن تو پشاو ربھی آئیں یا کراچی ہی میں ہوں تو ریلوے سٹیشن پر پہنچ کر بینچ پر کھوکے سے چائے پی کر ایک طرح کی پکنک منا کر بس میں بیٹھ کر گھر واپس آ جاتے ہیں۔