ایک بائیک پر سوار ہیں ‘یہ موٹرسائیکل ہشتنگری پارک کے پاس مین گیٹ سے جی ٹی روڈ پر آیا ۔تیز طرار مگر افسوس کہ ایک تو چار آدمی اور پھر بائیک چلانے والے کے سمیت چاروں کے ہاتھ میں رنگین ٹچ سکرین والے موبائل تھامے ہوئے لہرا رہے ہیں۔ پیچھے والا سوا ر اگلے کی کمر سے بچ کر موبائل کو ہوا لہرا کر دیکھ رہا تھا اور اس سے پیچھے والا دوسری سمت میں موبائل لہرا رہاتھا۔ اتنی غفلت اور سُستی اب رات بارہ بجے کون سا پولیس سپاہی بھلا ان کوروکے بس جس کا جی چاہتا ہے شہر کو جس طرح پامال کرے کر سکتا ہے۔جو بھی کر لے گزر جائے اس کو روکنے والا تک نہیں ہوگا۔اسی قسم کے چار آدمی لاہوری گیٹ کے باہر دیکھے جو خاص مین سڑک کے پاس فٹ پاتھ پر بیٹھ کر سر جوڑے نشہ آور سگریٹ سلگائے بیٹھے تھے اور مزے سے دنیا او رجو باقی کچھ اس میںہے سب سے بے نیاز ہو کر کش لگا رہے تھے۔کوئی ان کوبھلا کب روک سکا ہے۔ان کی اصلاح کے لئے تو ادارے بھی بنے ہیں ۔ان کو اٹھا کرلے جاتے ہیں اور ان کی تربیت کرتے ہیں او ران کو اچھا انسان بنا کر معاشرے میں دوبارہ بھیج دیتے ہیں۔ مگر یہ دوبارہ اسی معاشرے میں نشہ کرنے والوں کی شکل میں انھی فٹ پاتھوں پر آن موجود ہوتے ہیں ۔ وہیں شہر میں رات کے اس سمے دیکھا کہ چار چار آدمی چار کرسیوں پر بیٹھ کر چائے اور قہوہ پی رہے ہیں اور ساتھ پراٹھے بھی چل رہے ہیں ۔مگر یہ منظر پہلے متذکرہ دو مناظر سے زیادہ دلکش اور حسین تھا ۔بلکہ ایک مقام پر تو نہیں تھا ۔شہر بھر میں ہر کہیں تھا۔جہاں دن کو رش کا میدان سجا ہوگا ہے وہاں رات کے اس وقت خالی خولی سڑکو ں پر ہوٹل کی ٹیبلیں لگی ہوتی ہیں اور یہ لوگ وہا ںبیٹھ کر گپیں بھی ہانک رہے ہوتے ہیں اور ساتھ ساتھ چائے بھی نوش کر رہے ہوتے ہیں ۔چلو یہ کم برا ہے بلکہ بعض حالات میں تو اچھا ہے کہ نشہ کرنے سے توبہتر ہے اور موٹر سائیکل پر سوار آوارہ گردوںسے کہیں اچھا ہے کہ یہ صحت مند قدم ہے ۔کیونکہ یہاں بیروزگاری بہت زیادہ ہو چلی ہے ۔بیروزگاری کے دفتر کے آگے اب تو آئے دن سڑک بند رہتا ہے ۔ کیونکہ وہاں نوجوان اپنے اپنے کاغذات لے کر کھڑے ہوتے ہیں تاکہ ان کو کہیں روزگار کا موقع مل سکے ۔ اس رش کو دیکھ کر لگتا ہے کہ پورا شہر بیروزگار ہے ۔پھر وہ دفتر بھی جہاں باہر کے ملک جانے والے اپنی کاغذات کی جانچ پڑتال کرواتے ہیں ۔ وہا ںتو رش دیکھنے لائق ہوتا ہے۔کیونکہ ہر نوجوان باہر جانا چاہتا ہے۔آج کل کا ٹرینڈ ہے کہ گا¶ں ہو یا شہری علاقہ ہو ہر دسویں گھر میں سے یہ اطلاع ملتی ہے کہ ان کا بچہ باہر کسی قریبی ملک جا رہا ہے کیونکہ ایک تو وہ ملک قریب ہوتا ہے دوسرے یہ کہ اس کاٹکٹ بھی دوسرے ترقی یافتہ ملکوں کی بہ نسبت سستا ہو تا ہے ۔پانچ لاکھ جھونک دو تو بندہ باہر کے کسی مالدار اور قریبی ملک میں جا پہنچتا ہے۔مگر ایسا بھی ہے کہ سادہ لوح لوگوںکو دھوکا ہوتا ہے اور ان کے ٹکٹ کے پیسے ضائع ہو جاتے ہیں۔کیونکہ چور اُچکے وہ پیسے چھین کر بھاگ جاتے ہیں اور پھر ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتے ۔ جو قریب قریب کے سمندری ملک ہیں وہا ںتو ہمارے پاکستانیو ںکی اچھی خاصی تعداد پہنچی ہوئی ہے۔ بال بچے یہاں اپنے وطن میں تنِ تنہا گزارا کرتے ہیں او ریہ لوگ سالوں کے بعد گھر کو واپس لوٹتے ہیں ۔ مگر مہینہ یا دو ماہ کی چھٹی گزار کر دوبارہ اپنے کام کاج کے لئے دوسرے ملکوں کی یاترا کو پہنچ جاتے ہیں۔پھر ان باہر جانے والوں کی عمر بھی تو کم ہے۔ پیچھے گھر میں دونوالہ روٹی کے کھائیں اور عمر بھر کے لئے اپنا بچہ کھو دیں۔ پھر معلوم بھی تو نہیں ہوتا کہ ان کے بچوں کے ساتھ دیار ِ غیر میں کیاہوتا ہے۔ ماں باپ اور چچا ماموں وغیرہ سے دور رہ کر وہ جانے کس صحبت میں پھنس جائیں اور ان کو کسی برے کام میں پھنسا دیا جائے ایسا تو عام ہوتا ہے۔پھر چونکہ کچی عمروں کے ہوتے ہیں اور اپنے سامنے ہر برا کام ہوتا ہوا دیکھتے ہیں اس لئے جوانی کی دہلیز میں قدم رکھتے ہی ماں باپ اور گھروالوں ،سینئر لوگوں کی غیر موجودگی میں غلطی کرنے کے خطرے سے ہمہ وقت دوچار رہتے ہیں ۔