ٹک ٹاک میں مقابلے کی فضائ


اب تو ٹک ٹاک کا زمانہ ہے برا بھی تو نہیں ۔ کیونکہ لوگوں کے پاس وقت جو نہیں رہا ۔ہر آدمی اپنے پسینوں میں نہایا ہوا ہے ۔ہر کوئی خفا اور دلگیر ہے ۔اس کو سمجھ میں نہیں آتا کہ اس نے اس معاشرے میں رہ کر کر نا کیا ہے ۔اس کے خواب چکنا چور ہو چکے ہیں۔اس سے اپنے پرائے دور ہو چکے ہیں ۔سو وہ اس وقت ہنسی مذاق چاہتا ہے ۔بس ہے اس نے اداس رہ کر دیکھ لیا اب وہ ہنسنا چاہتاہے اور کھلکھلا کر ہنسنا چاہتا ہے۔اس لئے جو ٹک ٹاک پر پندرہ یا تیس سیکنڈ کی ویڈیو دیکھتا ہے تو نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے لبوں پر ہنسی کھیل جاتی ہے ۔بلکہ اس حد تک کہ جوان نسل تو کیا سینئر لوگ بھی اب لمبی موویاں نہیں دیکھتے ۔کوئی کام کی بات ہو ٹک ٹاک میں کسی دانشور کی نکتہ کی باتیں سنتے ہیں ۔پھر نوجوان تو اس میں یوں کھوئے ہوئے ہیں کہ اسی دنیا کے ہو کر رہ گئے ہیں ۔کیونکہ ٹک ٹاک میں جو مزا ہے اور تفریح ہے وہ افراتفری کی حد تک ہے کہ ایک دیکھ لوں تو دوسری بھی دیکھوں ۔ آج ہمارے معاشرے کا انسان اتنا دکھی ہے کہ وہ ہنسنا چاہتا ہے۔خوب قہقہہ لگا نا چاہتا ہے کیونکہ وہ اندر سے بکھر چکا ہے ا س کے دل کا شیشہ جیسے گر کر چکنا چور ہو گیا ہے۔بلکہ میں کہوں بڑے اچھے اچھے گھنٹہ بھر کے طویل پروگرام اور ٹاک شو اور دیگر معلوماتی مواد کے لئے بھی بطور تعارف ایک ٹک ٹاک بنتا ہے۔تاکہ جو اس تیس سیکنڈ کی ویڈیو کو دیکھے تو جی چاہے گا اور وہ اس لنک کو فالو کرتے ہوئے کلک کرے گا اور وہ پروگرام دیکھنا شروع کر دے گا۔آنے والے وقتوں میں آدمی کے پاس ٹائم کی کمی کس حد تک بڑھ جائے گی۔ اب تو خبروں کے بڑے اور عالمگیر نشریاتی ٹی وی کے ادارے بھی ٹک ٹاک پر آ گئے ہیں۔اپنی موٹی موٹی خبریں ٹک ٹاک پر بطورِ تعارف پیش کر دیتے ہیں۔تاکہ وہ جلد از جلد اپنے سامعین اور ناظرین کے آنکھوں کے ذریعے ان کے دل تک پہنچ جائیں۔ کیونکہ آج کل تو مقابلے کی فضا ہے ۔ ہر سُو مقابلہ کا ماحول ہے ۔کاروبار ہو یا کسی ادارہ میں ہو موبائل ہو یا کمپیوٹر اس مقابلے کی فضانے کسی کو کہیں کا نہیں چھوڑا۔بچیاں ہیں تو ان کی آئی ڈی بنی ہوئی ہیں لڑکے بالے ہیں تو کھیتوں کھلیانوں میں موجود ہیں اور ٹک ٹاک پرزور ہے۔ا س ٹاک ٹاک نے جہاں ان کو مصروف کر دیا ہے۔وہاں ان کے لئے انٹر ٹینمٹنٹ بھی مہیا کر دی ہے ۔ٹک ٹاک کی ایک ویب سائٹ تو نہیں ہے تین چار ہیں اور کیسی کیسی ہیں کہ بندہ دیکھتا ہی رہ جائے۔ جہاں تک ہنسی مذاق اور تفریح کی بات ہے وہ تو قابلِ قبول ہے مگر اس سے حد سے بڑھ مذاق کا پہلو تراشنا اور تلاشنا وہ درست نہیں ہے ۔پہلے تو ٹک ٹاک کا سر پیر نہیں تھا جس کا جو جی چاہتا تھا وہ اپ لوڈ کردیتا تھا مگر اب ٹک ٹاک کا اپنا ایک ضابطہ ہے اگر وہ قانون کے دائرے سے باہر نکل جائے تو اس کو ٹک ٹاک کی دنیا سے نکال باہر کیا جاتا ہے۔ٹک ٹاک میں جو سب سے بڑی خوبی ہے ۔ وہ یہ ہے کہ کام کی بات ہوتی ہے اور مختصر وقت میں بتلا دی جاتی ہے ۔اس پر ہنسنا ضروری نہیں بلکہ مذاق کے علاوہ اس پر سنجیدگی کا عمل بھی ہوتا ہے ۔جیسے پہلے زمانوں میں پڑھنے کے لئے داستانیں ہوا کرتی تھیں جس کی ایک قسط ہزِاروں صفحات پر مشتمل ہو تی تھی ۔طلسمِ ہوش ربا وغیرہ مگر جوں جو ںزمانہ ترقی کرتا جاتا ہے لوگوں کے پاس وقت کی کمی زیادہ ہونے لگتی ہے۔پھر ناول آگئے اور لوگ دوہزِار صفحوں کے بجائے دو سو صفحات کے ناول پڑھنے لگے۔ مگر جب زمانہ ترقی کرے تو چیزیں مختصر ہونے لگتی ہیں۔پھر بھی آدمی کے پاس وقت نہ رہا تو اس نے دو تین صفحوں کا افسانہ پڑھنا شروع کر دیا ۔پھر مزا دیکھئے کہ اتنا وقت بھی نہ رہا تو افسانے کے بجائے افسانچہ آ گیا جو آدھ صفحے پر مبنی ہوتا ہے۔ پھر اتنی بھی فرصت نہ رہی تو سو الفاظ کی کہانی نے جنم لے لیا ہے جس پرمعروف افسانہ نگاراپنی کہانیاں لکھ رہے ہیں۔پھر اس پر بھی بس نہ ہوئی تو اب تین سطری کہانی کا رواج چل نکلا ہے ۔جو میرا خیال ہے کہ پشاور سے نکلا ہے اور جس کو خالد سہیل ملک نے بڑھاوا دیا ہے۔اب یہ نہ ہو کہ آگے چل کر یک سطری کہانی نکل آئے او رپھر اس بھی دل برداشتہ ہو کر لکھنے والے یک لفظی کہانی کہیں سے نکال نہ ماریں۔ پھر لفظ بھی ختم ہوجائیں اور تصویری کہانیوں کا غاروں والا دور پھر سے واپس آجائے۔