گھوما کرتے تھے اور خوب گھومتے تھے۔یہاں سے وہاں اور وہاں سے کہاں ۔خود بھی پتا نہیں ہوتا تھا کہ وہاں پہنچ کر کس اور جانا ہے ۔سیلانی طبیعت تھی۔ سیلاب جس قریہ جس پرگنہ میں سے ہو کر گزر جائے کس کو کیا پتا ۔یہی ہماری حالت تھی۔ آوارہ گرد کی ڈائری لکھتے تھے۔صبح ہماری ٹیم کی میٹنگ ہوتی تھی ۔چاروں یار شہر کے مختلف راستوں پر رواں ہو جاتے تھے۔ ہمارا کام سگریٹ کی خالی ڈبیاں اکھٹی کرنا تھا۔پورے اندرونِ شہرمیں ہمارا یہی کام ہوتا تھا۔ کہتے ہیں لگن سچی ہو تو منزل مل جاتی ہے۔بس سراغ رساں حیوانوں کی طرح سر نیچے کئے سڑک کو دیکھتے جاتے ۔گاہے گاہے کسی کے ساتھ ٹکر بھی ہو جاتی اور کوئی سائیکل ہمیں بھی ٹھوک بجا دیتی ۔مگر ہم اپنی ان مشکلات سے بے نیازانہ آگے بڑھتے رہتے ۔ مختلف برانڈ کی سگریٹ کی خالی ڈبیا جمع کرنا بھی اپنی جگہ اس زمانے کا شوق تھابلکہ ہر کسی کا اپنا اپنا شوق ہوتا ہے۔کوئی ٹکٹ جمع کرتا ہے اورکوئی سکے جمع کرتاہے۔ہم ان دنوں سگریٹ کے پتے جمع کرتے ۔پھر شام کو اکٹھے ہوکر دائرہ میں بیٹھ کر اپنی اپنی کارگزاری بیان کرتے ۔جیب سے پتے نکالتے اور گنتے اور خوش ہوتے ۔گھرمیںب©ڑی الماری کے پیچھے یہ پتے جمع کر کے باندھ کر رکھے ہوتے ۔حالانکہ یہ نہ تو کباڑ میںبیچنے کی چیز تھے۔
اور نہ ہی کسی اور کے کام کی شے تھے۔شوق اسی کو تو کہتے ہیں ۔ عجیب شوق ہوتا لوگ جس پر حیران ہو ں اور کہیں کہ یار یہ کیا شوق ہے اور اگر ہے تو عجیب ہے ۔یہا ںکیا کیا شوق نہیںہیں جو ہم لوگوں نے پال رکھے تھے۔کبھی ہاکی کھیل رہے ہیں تو کبھی کرکٹ کھیل رہے ہیں۔جس شوق کے پیچھے پڑ گئے وہ اگر قدرت نے ہم سے چھڑا دیاتو اچھاورنہ ہم تو کسی شوق کو نہیں ترک کرتے تھے۔ ہاکی کا زمانہ تھا ۔کپتان اصلاح الدین بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی کے زمانے میں عالمی کپ میں فتوحات پہ فتوحات کر رہے تھے۔سیمی فائنل میں مغربی جرمنی کو ایک گول سے ہرا دیا تھا ۔یہ میچ ٹی وی پر رات گئے دیکھ رہے تھے ساتھ والد صاحب بھی تھے۔جب گول کیپر نزدیک آیاتو کپتان نے گیند کو اس کے سر کے اوپر سے سکوپ کر کے گول میںپھینک دیا۔ہم نے چیخیں مارنا شروع کر دیں اور والد سجدے میں گر گئے۔اپنی ہاکی ہوتی تھی او روزیر باغ کے چکر لگتے تھے ۔کوئی ساتھ نہ بھی ہوتا تو اکیلے نکل جاتے کیونکہ معلوم ہوتا وہاں کوئی نہ کوئی ہاکی کھیلنے والا مل جائے گا۔ سکول کی ہاکی ٹیم میں بھی رائٹ آ¶ٹ کی پوزیشن پر کھیلے ۔اتنے منہمک اور ڈوب کر کھیلتے کہ وزیر باغ کے گرا¶نڈ پر ہمارے فرمان استاد بطور ریفری فرائض انجام دیتے ۔وہ فلائنگ ہارس سمیع اللہ کے عروج کا زمانہ تھا۔ہم بھی گیند لے کر گول پوسٹ کی طرف لپکتے تو کانوں میں سیٹیاں بجتیں مگر مجال ہے کہ ہمیں کسی سیٹی کی پروا ہو ۔ اتنا جوش و جنوں ہوتا اور ہم گول تک پہنچ جاتے تو ساتھی آواز دیتے اوئے فا¶ل کھیل رہے ہو۔پھر ہاکی وہ کہ اس وقت پاکستان کے پاس پانچ عالمی کپ تھے‘ مگر ہر عروج کو زوال ہوتا ہے اس لئے آج جب پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو ایک کپ بھی ہمارے پاس نہیں۔ہمارے ہاتھ سے تو ہاکی لے ہی لی گئی اور غیر قوموں کو مل گئی وہ اس بل بُوتے پر عالمی چیمپئن بن گئے۔ہم چیمپئنز ٹرافیاں جیتتے تھے مگر ایک زمانہ آیا کہ ہم ہارنے لگے اور پے درپے ہارنے لگے اتنے کہ کوئی ایک میچ بھی اگر
جیت جاتے تو وہ ہمارے لئے فائنل میچ ہوتا ۔ہمارے پشاور کے بھی بہت سے کھلاڑی پاکستانی ہاکی ٹیم میں کھیلے امتیاز آفریدی اور مصدق پھر کچھ اور نام ہیںمگر اس وقت ذہن کی تختی پرابھر نہیں رہے۔مگر آج تو صورتِ حال ہی اور کچھ ہے ۔بریگیڈئیر عاطف ٹیم کے منیجر تھے اور ٹیم لے کر یونیورسٹی کیمپس کے کسی گرا¶نڈ پر پریکٹس میچ میں باہر سابق کیپٹن اصلاح الدین کے ساتھ کھڑے تھے اور ہم شہر سے سائیکل لے کر یونیورسٹی پہنچے اور ان کے ساتھ سائیکل سمیت کھڑے ہوگئے ۔کوئی دہشت گردی نہ تھی کوئی روک ٹوک نہ تھی۔ پھر معلوم ہوتا کہ سروسز گرا¶نڈ پر تین روزہ کرکٹ میچ انڈیا کے ساتھ ہو رہا ہے سائیکل اٹھائی اور وہاں پہنچ گئے۔ ارباب نیاز سٹیڈیم کا وجود تک نہ تھا۔وہاں پہلی بار انڈین کیپٹن کپل دیو کی انٹری تھی بہت اجنبی کھلاڑی مگر اس نے بعد میں جو کارنامے انجام دیئے تو ہمیں اس کا اول میچ یاد آتا تھا ۔اسی گرا¶نڈ پر ایک روز پہلے پاکستانی ٹیم پریکٹس کررہی تھی۔ ہم جا کر عین گرا¶نڈ میں سلپ میں ظہیر عباس کے پاس کھڑے ہو گئے ۔اتنے بڑے کھلاڑیوں کو گرا¶نڈ میں اپنے پاس دیکھنا ایک عجیب تجربہ ہے جس کا تصور آج کوئی بھی عام آدمی جس کے ساتھ بائی سائیکل بھی ہو نہیں کرسکتا۔