خیبرپختونخوا کے صوبائی دارالحکومت پشاور کی صحافتی تاریخ جب کبھی بھی لکھی جائے گی اس میں ایک باب یہ بھی شامل ہوگا کہ دیگر شہروں سے پنجاب سے پشاور وارد ہونے والوں نے یہاں صحافت کے مختلف شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا اور انہی میں شامل دو صحافتی فوٹوگرافرز بطور خاص قابل ذکر ہوں گے‘ جن میں سے ایک کا انتقال حال ہی میں ہوا ہے‘ جوانسال زبیر میر کا اچانک انتقال 1999 میں جبکہ گلشن عزیز طویل عرصے سے مختلف جسمانی عارضوں سے مقابلہ کرنے کے بعد مئی دوہزاربیس مےں غروب ہو گئے۔ہنس مکھ زبیر میر مرحوم انگریزی زبان کے اخبار فرنٹیئرپوسٹ سے وابستہ رہے۔ ان کا تعلق کشمیری گھرانے سے تھا اور وہ اپنے تعارف میں اکثر خود کو کشمیری پٹھان کہہ کر داد و تائید وصول کیا کرتے تھے۔ یہی سوچ ان کی پشاور اور پختونوں سے محبت کی عکاس بھی تھی‘ وہ تخلیقی صلاحیتوں سے مالا مال تھے اور یہی وجہ تھی کہ بہت جلد فن عکاسی میں ان کی فکرونظر نہ صرف ملکی بلکہ عالمی سطح پر سراہائی گئی۔ فرنٹیئر پوسٹ میں کافی عرصہ کام کرنے کے بعد تو انہوں نے روزنامہ مشرق پشاور میں ملازمت اختیار کر لی۔ ان کی بنائی ہوئی تصاویر دیگر ہم پیشہ ساتھیوں سے مختلف ہوتیں کیونکہ وہ چیزوں کو مختلف اندازاور مختلف زاوئیوں سے دیکھا کرتے تھے‘ یہی وجہ رہی کہ فن عکاسی کے مختلف شعبوں بشمول صحافتی عکاسی میں پشاور کو زبیر میر مرحوم کا ثانی نہ مل سکا‘جو اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی اور امتیازی حیثیت سے ادا کرنے پر عبور رکھتے تھے۔
زبیرمیر کا ایک تعارف ان کی خوش لباسی بھی تھا۔ لباس کے معاملے میں ان کی یہ خصوصیت یعنی غیرمعمولی احتیاط اور توجہ انہیں دیگر ہم عصروں سے ممتاز بنائے رکھتی۔ وہ مقامی و غیرمقامی ہم پیشہ ساتھیوں کی طرح شلوار قمےض کی بجائے اکثر پینٹ شرٹ زیب تن کرتے اور اگرچہ پشتو زبان بولنے پر زیادہ عبور نہیں رکھتے تھے لیکن یہ لاعلمی رکاوٹ نہیں تھی اور وہ سبھی زبانیں بولنے والے صحافتی حلقوں میں یکساں مقبول تھے۔ یہی وجہ تھی کہ جب ان کے اچانک انتقال کی خبر ملی تو دیگر سماجی و سیاسی حلقوں کی طرح پشاور کی صحافتی برادری سے تعلق رکھنے والوں کو بھی حیرت‘ صدمے اور دکھ سے دوچار کیا کہ وہ ایک ملنسار‘ ہنس مکھ اور آزمودہ دوست سے ہمیشہ کے لئے الگ ہو گئے ہیں۔ وہ اپنی عمر کی تیس بہاریں دیکھ چکے تھے کہ ہارٹ اٹیک سے انتقال کر گئے ‘ مرحوم کو اسلام آباد میں سپرد خاک کیا گیا تھا۔ ان کے پسماندگان میں ایک بیوی اور تین بچے شامل تھے۔ رواں برس عیدالفطر پر اطلاع ملی تھی کہ ان کی بیوی کا کینیڈا میں انتقال ہوا ہے۔ زبیر میر مرحوم قائدانہ صلاحیتوں سے بھی مالا مال تھے اور یہی وجہ تھی کہ وہ پشاور یونین آف جرنلسٹس اور خیبریونین آف جرنلسٹس کی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے جو صحافیوں کی فلاح وبہبود اور ان کے ملازمتی طریقہ کار و اوقات کار اور دیگر حقوق کے تحفظ سے متعلق نمائندہ مستند تنظیمیں ہیں۔ پشاور پریس کلب میں زبیرمیر کے نام سے ایک ہال بھی منسوب بطور یادگار موجود ہے۔روزنامہ مشرق پشاور سے وابستہ مرحوم گلشن عزےزخیبرپختونخوا اور بالخصوص پشاور میں ہونے والی صحافتی عکاسی کا ایک اور درخشاں ستارہ تھا‘ گلشن عزیز ایوارڈ یافتہ عکاس تھے‘ تصاویر کی کئی قومی نمائشوں میں ان کے بنائے ہوئے فن پارے رکھے جاتے تھے۔
ان کی مہارت سیاحتی مقامات کی خوبصورت تصاویر کے ذریعے اجاگر کرنے سے متعلق تھی اور اپنی اس مہارت میں وہ خیبرپختونخوا کے قریب سبھی ہم عصروں میں ممتاز تھے۔ گلشن عزیز کی مادری زبان بھی پنجابی تھی لیکن وہ اردو روانی سے بولتے اور اگرچہ بول نہیں سکتے تھے لیکن ایک طویل عرصہ پشاور میں مقیم رہنے کی وجہ سے انہیں پشتوزبان کی سمجھ آتی تھی۔ صحافتی فوٹوگرافی کی خاص بات یہ ہوتی ہے کہ اس میںبسا اوقات خطروں سے کھیلنا اور خطرے مول لینا پڑتے ہیں اور یہیں سے کسی پیشہ ور اور انجان کے تجربے‘ مہارت اور ذہانت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ اپنی جان کو بچاتے اور تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے کس حادثے‘ سانحے‘ واردات یا تقریب و نشست کی ایسی جھلک کیمرے کی آنکھ سے محفوظ کر لیتا ہے کہ وہ ہمیشہ کے لئے یادگار بن جاتی ہے۔
زبیرمیر اور گلشن عزیز ایسے ہی فن کار تھے‘ جن کی بنائی ہوئی تصاویر بولتی تھیں‘ وہ حقیقی معنوں میں ایسی تصاویر کے خالق ہوتے جو کسی واقعے سے متعلق ہزار الفاظ سے زیادہ تحریر ہونے والی خبر سے زیادہ کچھ بیان کر رہی ہوتی تھیں۔ خلد آشیاں زبیر میر اور گلشن عزیز کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے وقت ہے کہ صحافتی مقاصد کے لئے فوٹوگرافی کرنے والوں کے حالات کار اور اوقات کار کو بہتر بنانے کا بھی مطالبہ دہرایا جائے‘ جو خطرات کا مقابلہ کرنے میں تھکاوٹ کا شکار نہیں اور جنہیں اپنی جان خطرے میں ڈالنے کی بھی پرواہ نہیں ہوتی ایسے تمام فوٹوجرنلسٹس کے حقوق کی ادائیگی و خدمات کا اعتراف ان کی زندگیوں ہی میں ہونا چاہئے۔ اکثر صحافتی ادارے فوٹوگرافی (فوٹوجرنلزم اور ویڈیو جرنلزم) میں استعمال ہونےوالے بیش قیمت سازوسامان(کیمرے‘ لینزز‘ فلیش گنز‘ مونو پاڈز‘ ٹرائی پاڈز‘ بیگز‘ موبائل فونز‘ لیپ ٹاپ وغیرہ) تو فراہم کرتے ہیں لیکن وہ کیمرے کے پیچھے کام کرنے والے اس انسان کی خدمات کا خاطرخواہ اعتراف نہیں کرتے جو عہد وفا کےساتھ تمام تر نامساعد حالات اور مالی مشکلات کے باوجود صحافتی پیشہ ورانہ محاذ پر اس امید کےساتھ ڈٹ کر مقابلہ کر رہا ہے کہ کسی روز روشن‘ اس کی زندگی ہی میں‘ اس کی اہمیت و خدمات کا اعتراف کیا جائے گا۔
(بشکریہ: دی نیوز۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)