خیبرپختونخوا کے ضلع ’لکی مروت‘ کا نام تبدیل کرنے کا معاملہ اختلافات میں گھڑا ہوا ہے اور یہ اِختلاف تنازعہ کی شکل اختیار کر چکا ہے جس کے جلد حل ہونے کی توقعات کم دکھائی دیتی ہیں۔ خیبرپختونخوا کے وزیر برائے سماجی بہبود‘ خصوصی تعلیم اور ویمن ایمپاورمنٹ‘ ہشام انعام اللہ خان نے کہا ہے کہ اُن کا ہدف (مشن) یہ ہے کہ لکی مروت ضلع کا نام تبدیل کرکے ’محمدیہ مروت‘ رکھا جائے۔ راقم سے بات چیت کرتے ہوئے اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ اِس سلسلے میں اُنہوں نے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان سے ایک درخواست پر دستخط (تائید) حاصل کر لئے ہیں جس پر وزیراعلیٰ نے سینئر ممبر ’بورڈ آف ریونیو (ایس ایم بی آر)‘ کو لکھا ہے وہ اِس معاملے کو ترجیحی بنیادوں پر دیکھیں۔ ہشام انعام اللہ نے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کو ضلع لکی مروت کا نام تبدیل کرنے کے لئے درخواست 10 جولائی کے روز تحریر کی تھی جس پر اُنہیں پانچ روز میں جواب ملا اور مذکورہ درخواست اب ’ایس ایم بی آر‘ کے پاس ہے تاہم واضح نہیں کہ اِس کی قسمت کا فیصلہ کب ہوگا لیکن نام تبدیلی سے متعلق اِس پوری پیشرفت نے تنازعے کو جنم دیا ہے اور اگرچہ لکی مروت کا نام تبدیل ہونے کے امکانات کم ہیں لیکن ہشام انعام اللہ پوری کوشش کر رہے ہیں اور اِس سلسلے میں ایک مہم چلا رہے ہیں۔ معلوم ہوا ہے کہ اُن کے قریبی عزیز سیف اللہ خاندان نے اِس معاملے پر اُنہیں تحمل کا مظاہرہ کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ سیف اللہ خاندان لکی مروت کی سیاست کا اہم نام ہے جو سالہا سال تک اِس ضلع پر بلاشرکت غیرے حکمرانی کرتے رہے ہیں اور اِس کے فیصلوں (سیاہ و سفید) کے مالک رہے ہیں۔ڈاکٹر ہشام خان پیشے کے لحاظ سے ڈینٹل سرجن ہیں اور اِن کا تعلق پاکستان تحریک انصاف سے ہے۔ جولائی 2018ءکے عام انتخابات میں انہوں نے لکی مروت کی تین میں سے ایک صوبائی اسمبلی کی نشست (PK-92) پر کامیابی حاصل کی اور 38 ہزار 475 ووٹ حاصل کئے جبکہ اُن کے مدمقابل دوسرے نمبر ’متحدہ مجلس عمل‘ کے نامزد اُمیدوار (نور سلیم ملک) نے 28 ہزار 450 ووٹ لئے تھے۔ ہشام انعام اللہ خان جنوبی اضلاع سے کامیاب ہونے والے تحریک انصاف کے کامیاب اُمیدواروں میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کر کے نمایاں رہے تھے۔ اُنہیں وزیر بنایا گیا اور صحت کا قلمدان دیا گیا۔ تاہم ڈاکٹروں کی ہڑتال اور دیگر امور کی وجہ سے وزیراعلیٰ محمود خان نے اُنہیں صحت کی صوبائی وزارت سے تبدیل کیا اور انہیں سماجی بہبود کی وزارت کا قلمدان سونپ دیا‘ جس کا حصہ خصوصی تعلیم اور ویمن ایمپاورمنٹ جیسی اہم وزارت بھی ہیں۔ ڈاکٹر ہشام انعام اللہ کی جانب سے لکی مروت کا نام تبدیل کر کے ’محمدیہ مروت‘ رکھنے کی دیگر جماعتوں سے تعلق رکھنے والی مقامی سیاسی قیادت مخالفت کر رہی ہے اور اِن میں پیش پیش جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمن سے تعلق رکھنے والے رکن صوبائی اسمبلی منور خان ہیں‘ جو لکی مروت سے منتخب ہوئے۔ ذہن نشین رہے کہ لکی مروت سے صوبائی اسمبلی کی دو اور قومی اسمبلی کی اکلوتی نشست پر جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمن کے نامزد اُمیدوار کامیاب ہوئے تھے۔ رکن صوبائی اسمبلی منور خان نے یہ معاملہ صوبائی اسمبلی میں بھی اُٹھایا ہے اور لکی مروت کا نام تبدیل کرنے کی تجویز کو مسترد کیا جس کا جواب دیتے ہوئے ہشام انعام اللہ خان نے کہا کہ وہ آئندہ عام انتخاب میں اپنے حلقے PK-92 کے ساتھ اُن کے انتخابی حلقے PK-91 سے بھی الیکشن لڑیں گے اور ثابت کریں گے کہ وہ ضلع لکی مروت کے رہنے والوں کی حقیقی ترجمان ہیں۔لکی مروت کا نام تبدیل کرنے کی کوششیں خاصی سنجیدہ ہیں۔ مروت قومی جرگہ کے سربراہ اُور عیسیٰ خیل قبیلے کے ریئس الحاج اَسلم خان کا کہنا ہے کہ وہ ضلع لکی مروت کا نام تبدیل کرنے یا نہ کرنے کے لئے کسی بھی فریق بشمول حکمراں جماعت تحریک انصاف کی حمایت نہیں کر رہے۔ اُن کا یہ مو¿قف قابل فہم ہے کہ کیونکہ اُن کا تعلق جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمن) سے ہے جبکہ ہشام انعام اللہ ’مروت قومی جرگہ‘ کی نمائندگی پر سوال اُٹھاتے ہیں۔لکی مروت کا نام کیوں تبدیل ہونا چاہئے؟ اِس سلسلے میں اپنی تجویز کا دفاع اور وضاحت کرتے ہوئے ہشام انعام اللہ نے کئی دلائل دیئے جس میں یہ نکتہ بھی شامل ہے کہ لکی مروت کے عوام اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات سے گہری محبت رکھتے ہیں اور یہ عوام کی اکثریت کا مطالبہ ہے کہ اُن کے ضلع کا نام ’محمدیہ مروت‘ ہونا چاہئے۔ دوسرا وہ یہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں 18 اضلاع کے نام تبدیل ہوئے ہیں اور لکی مروت ایسا واحد ضلع ہوگا جس کا نام کسی سیاسی نسبت سے نہیں بلکہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ کی نسبت سے تبدیل کیا جائے گا۔ تیسرا جواز تاریخی پس منظر کا دیا جاتا ہے کہ ضلع لکی مروت میں ’مروت پختون‘ نامی قبیلے سے تعلق رکھنے والوں کی اکثریت ہے جبکہ وزیر‘ خٹک‘ بھٹنی اور نیازی بھی آباد ہیں جنہیں لکی کہا جاتا ہے۔ اُنہوں نے لکی مروت کے پرانے نام کی وجہ تسمیہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ لکی مروت تھل دامان تھا جس کا مطلب صحرائی علاقے کے ہوتے ہیں۔ 1836ءمیں سکھ دور کے دوران سردار رنجیت سنگھ نے اِس علاقے کو ہندو ٹیکس وصول کرنے والے نگران ’دیوان لکی مل‘ کو 40 ہزار روپے اجارے پر دیا تھا۔ لکی مل نامی نگران حکومت حکومتی نمائندہ نہیں تھا بلکہ جابرانہ اور زبردستی ٹیکس وصولی کرنے کےلئے مشہور تھا۔ اِس لئے لفظ ’لکی‘ غلامی کے ایک دور کی یاد ہے جو کہ ایک ہندو نام ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہم اپنے ضلع کے لئے اپنا اور ایک اِسلامی نام چاہتے ہیں۔ہشام انعام اللہ کو تنقید کا بھی سامنا ہے اُن کے مخالفین جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمن) کے رہنما کہتے ہیں کہ اُنہیں سب سے پہلے اپنا نام تبدیل کرنا چاہئے کیونکہ اسلام مخالف ابوجہل کا اصل نام ہشام تھا اور اِس کا جواب دیتے ہوئے ہشام انعام اللہ نے ابتدائے اسلام کی تاریخ سے 23 ایسے جید افراد کے نام گنوا دیئے جن کے نام ہشام تھے اور اِن میں سے چند بزرگوار ہستیوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات مبارکہ میں جام شہادت نوش فرمایا تھا۔ جب اُن پر یہ الزام لگا کہ وہ سیاسی مقاصد کے لئے مذہب کا نام استعمال کر رہے ہیں تو اُنہوں نے پشاور میں علمائے کرام اور مفتیوں سے رجوع کیا اور فتویٰ حاصل کیا جس کے مطابق ’لکی مروت‘ کا نام تبدیل کرکے ’محمدیہ مروت‘ رکھنے میں شرعی طور پر کوئی حرج (قباحت) نہیں۔ ہشام انعام اللہ ہر قسم کی تیاری رکھتے ہیں اور اپنے مو¿قف پر ڈٹے ہوئے ہیں جس کے خلاف ہونے والے ہر اعتراض کا جواب دیتے ہیں۔ بطور وزیر بھی وہ لکی مروت اور بالخصوس اپنے انتخابی حلقے پر ترقیاتی توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں اور وزیراعلیٰ کو قائل کئے دباو¿ ڈال رہے ہیں کہ ’لکی مروت‘ کا نام تبدیل ہونا چاہئے لیکن اِس قسم کا فیصلہ آسان نہیں ہوگا کیونکہ اِس کی سیاسی مخالفت پہلے ہی سے سر اُٹھا چکی ہے اور مخالفت کرنے والوں کی صف میں تحریک انصاف ہی سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی ریٹائرڈ کرنل ڈاکٹر امیراللہ مروت بھی شامل ہیں۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)