پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ کا انتقال 12 نومبر کے روز کورونا وبا کی وجہ سے پیدا ہونے والی صحت کی پیچیدگیوں کے باعث ہوا۔ وہ ایک غیرمعمولی شخصیت تھے جن کے آئینی فیصلوں کو خاص تاریخی اہمیت حاصل ہے اور یہ فیصلے عالمی ذرائع ابلاغ کی شہ سرخیوں میں بھی رہے۔ پاکستان کی تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ ہوا تھا کہ کسی آمر حکمران کو آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت پھانسی کی سزا دی گئی ہو وہ فیصلہ خصوصی عدالت کے تین رکنی بینچ نے دیا تھا جس کا جسٹس وقار احمدسیٹھ بھی حصہ تھے اور وہ تین میں سے اُن 2 ججوں میں شامل تھے جنہوں نے ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کو پھانسی کی سزا سنائی۔ مذکورہ فیصلے کا 66 نمبر پیراگراف سب سے زیادہ تنقید کا باعث بنا اور اُسے آئین سے ماورا¿ بھی قرار دیا گیا پرویز مشرف پر اکتوبر 2019ءمیں فرد جرم عائد کی گئی تھی اور 17ستمبر کے روز فیصلے کا اعلان کیا گیا جس کے 2 دن بعد 169صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا گیا۔ جسٹس وقار سیٹھ جانتے تھے کہ اُن کے فیصلے کا بے صبری سے انتظار کیا جا رہا ہے اور سب کی نظریں اُن کی عدالت پر ہیں جبکہ اُن پر پہلے ہی سے تنقیدکا سلسلہ شروع کر دیا گیا تھا۔ بہرحال اُن کے فیصلے پر بہت سوں نے تعجب کا اظہار کیا۔ اس قسم کا فیصلہ غیرمعمولی تھا اور ایسے فیصلے تحریر کرنے کے لئے بہت ساری جرا¿ت و بہادری کی ضرورت ہوتی ہے۔ علاو¿ہ ازیں اِس قسم کے فیصلے تحریر کرنے کے لئے بہت سارے ذاتی مفادات کی قربانی بھی دینا پڑتی ہے۔ شاید یہی سبب رہا ہو اور شاید یہی قیمت ہو کہ جسٹس سیٹھ کو پشاور ہائی کورٹ سے ترقی دیکر سپریم کورٹ کا جج نہیں بنایا گیا اور اُنہوں نے اپنے خلاف ہونے والے اِس امتیازی سلوک و ناانصافی کے خلاف آئینی جدوجہد بھی لڑی جب لاہور ہائی کورٹ کے تین ججوں کو سپریم کورٹ کا جج بنایا گیا لیکن اُن کے سینئر ہونے کے باوجود اُنہیں ترقی نہیں دی گئی۔ اپنی وفات سے 2 روز قبل اُنہوں نے حامد خان ایڈوکیٹ کے ذریعے ایک نئی درخواست بھی سپریم کورٹ میں جمع کروائی تھی‘ لیکن یہ درخواست ایک ایسے وقت میں داخل کی گئی جب وہ اسلام آباد کے ایک ہسپتال میں زیرعلاج تھے اور جلد ہی کورونا وبا کا حملہ شدید ہوا تو اُنہیں مصنوعی آلات تنفس (وینٹی لیٹر) پر منتقل کر دیا گیا۔ اُنہیں 22 اکتوبر کے روز کورونا سے متاثر ہونے کی اطلاع ملی تھی‘ جب وہ پشاورمیں تھے اور چند روز پشاور میں زیرعلاج رہنے کے بعد ڈاکٹروں کے مشورے سے اسلام آباد منتقل کر دیئے گئے۔ جسٹس سیٹھ کو سپریم کورٹ کا جج نہ بنائے جانے کے خلاف اظہار یک جہتی کرتے ہوئے خیبرپختونخوا بار کونسل نے عدالتوں کا بائیکاٹ بھی کیا تھا لیکن زندگی نے اُن سے وفا نہ کی۔جسٹس وقار سیٹھ کا تعلق خیبرپختونخوا کے جنوبی ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کے ایک کاروباری (بزنس مین) گھرانے سے تھا لیکن اُنہوں نے وکالت کی تعلیم اور اِسی شعبے کے لئے خود کو وقف کئے رکھا۔ دسمبر 1985ءمیں بطور وکیل ماتحت عدالتوں سے پیشہ وارانہ خدمات کا آغاز کیا۔ اگست 2011ءمیں پشاور ہائی کورٹ کے ایڈیشنل جج بنے اور سات سال بعد پشاور ہائی کورٹ کے 24ویں چیف جسٹس کے عہدے پر فائز ہوئے۔جسٹس وقار سیٹھ کی وفات پر ملک بھر میں سوگ منایا گیا بالخصوص وکلا¿‘ سیاسی کارکنوں اور سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے لوگوں نے غم اور صدمے کا اظہار کیا۔ اُن کے جاننے والے بھی غمزدہ تھے اور ملک کی اعلیٰ قیادت بشمول وزیراعظم‘ پاک فوج کے سربراہ‘ قومی اسمبلی کے اسپیکر اور وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے الگ الگ تعزیتی پیغامات جاری کئے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)