خیبرپختونخوا کے شورش زدہ علاقوں میں قائم 5 کیڈٹ کالجوں سے گزشتہ پانچ سال کے تدریسی دورانیے میں فارغ التحصیل ہونے والے کل 2 ہزار 27 طلبہ فوج میں بطور افسر شامل ہونے کے علاوہ طب اور انجینئرنگ جامعات و دیگر تعلیمی اداروں سے وابستہ ہوئے ہیں۔ مذکورہ تعلیمی ادارے (کیڈٹ کالجز) پاک فوج کی زیرنگرانی کام کر رہے ہیں اور اِنہیں وفاقی و صوبائی حکومتوں سے اِن منصوبوں کیلئے مالی وسائل ملتے ہیں۔ خاص بات یہ ہے کہ فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ کی اکثریت کا تعلق خیبرپختونخوا کے حال ہی میں ضم ہونے والے قبائلی اضلاع (جو قبل ازیں وفاق کے زیرانتظام علاقے تھے) سے ہے۔کیڈٹ کالجز سے فارغ التحصیل ہونے والے دو ہزار سے زائد طلبہ میں 392 میڈیکل کالجز جبکہ 232 پاک فوج کا حصہ بنے ہیں جبکہ 540 انجینئرنگ جامعات اور 863 نے اعلیٰ تعلیم کیلئے دیگر اداروں میں داخلے لئے ہیں۔ متعلقہ حکام کا دعویٰ ہے کہ شورش زدہ علاقوں میں معیاری تعلیم فراہم کرنے والے مذکورہ پانچ کیڈٹ کالجز جو کہ سوات‘ صوابی‘ ورسک‘ وانا اُور سپن کائی میں قائم ہیں اپنے محل وقوع کی وجہ سے بھی خاص اہمیت کے حامل ہیں کہ یہ شورش زدہ اور ایسے علاقوں میں قائم ہیں کہ جہاں سہولیات ملک کے دیگر حصوں کے مساوی نہیں۔ اِن تعلیمی اداروں کے قیام کا بنیادی مقصد (غرض و غایت) بھی یہی تھی کہ تعمیروترقی سے محروم علاقوں میں تعلیم کے مواقع فراہم کئے جائیں۔سوات میں کیڈٹ کالج کا قیام وہاں پھیلی عسکریت پسندی کو کچلنے اور حالات معمول پر لانے کی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ سوات اور اِس سے ملحقہ علاقے بشمول مالاکنڈ ڈویژن عسکریت پسندی سے شدید متاثر ہوئے جس کے وجہ سے قانون نافذ کرنیوالے اداروں کو مئی 2009ء میں وہاں فوجی کاروائی کرنا پڑی اور یہ فوجی کاروائی اِس قدر بڑی اور منظم انداز میں کی گئی کہ اِس کی وجہ سے 23 لاکھ مقامی لوگوں کو نقل مکانی کرنا پڑی اور اِس کی وجہ سے سوات میں نہ صرف معمولات زندگی متاثر ہوئے بلکہ سیاحت کا شعبہ بھی متاثر ہوا‘ جسے بحال کر دیا گیا ہے۔ صوابی میں کیڈٹ کالج کا قیام بھی عسکریت پسندی سے متاثر ہونے کی وجہ ہی سے کیا گیا‘ جہاں کے ملک آباد (گدون) میں عسکریت پسندی کو کچلنے کیلئے خفیہ معلومات کی بنیاد پر فوجی کاروائی کی گئی تھی۔ اِسی طرح ورسک کے مقام پر کیڈٹ کالج مہمند اور خیبر کے قبائلی اضلاع کی سرحد پر واقع ہے جو ضلع پشاور کا حصہ ہے جبکہ جنوبی وزیرستان کے علاقوں وانا اور سپین کئی وہ قبائلی علاقے تھے جہاں سے عسکریت پسندی کا آغاز ہوا اور وہاں مقامی و غیرملکی عسکریت پسند جمع ہوئے جو ہمسایہ افغانستان میں امریکہ کی فوج کشی (نائن الیون) کے بعد یہاں منتقل ہوئے اور اِن علاقوں میں اپنے مراکز قائم کئے۔ اگرچہ مذکورہ علاقوں میں عسکریت پسندوں کی قیام گاہیں امریکہ کی فوجی کشی سے پہلے بھی موجود تھیں لیکن نائن الیون کے بعد اِنہیں پناہ گاہوں کے طور پر استعمال کیا جانے لگا۔ وانا احمدزئی قبیلے کا مرکز ہے جبکہ سپین کئی راغزئی محسود قبیلے کے مرکز میں واقع ہے۔ مذکورہ دونوں قبائل (احمد زئی وزیر اور محسود) کے درمیان ترقیاتی فنڈز کی تقسیم کے حوالے سے اختلافات رہتے ہیں۔کیڈٹ کالج سوات سرفہرست ہے جس نے 663 گریجویٹس تیار کئے جو پاک فوج کے علاوہ مختلف شعبہ ہائے تعلیم سے وابستہ ہوئے جس کے بعد بالترتیب صوابی‘ وانا‘ ورسک اور اسپین کئی سے تعلق رکھنے والے طلبہ کامیاب ہوئے۔ سوات سے 35 طلبہ نے پاک فوج میں بطور آفیسر شمولیت اختیار کی۔ 186 نے میڈیکل کالجز یا میڈیکل جامعات جبکہ 210نے انجینئرنگ اور 232 نے دیگر تعلیمی اداروں میں داخلے لئے۔کیڈٹ کالج صوابی نے 627 گریجویٹس دیئے جن میں 93 پاک فوج‘ 111 میڈیکل‘ 165 انجینئرنگ اور 258 دیگر تعلیمی اداروں سے وابستہ ہوئے۔کیڈٹ کالج ورسک پشاور کے نواح میں مہمند اور خیبر اضلاع کے سنگم پر واقع ہے جس کے 273 گریجویٹس میں سے 23 نے فوج‘ 33 نے میڈیکل‘ 87 نے انجینئرنگ اور 130 نے دیگر کالجوں یا جامعات میں داخلہ لیا۔ کیڈٹ کالج وانا (جنوبی وزیرستان) سے نمایاں حیثیت میں فارغ التحصیل ہونے والے 60 طلبہ نے فوج‘ 57 نے میڈیکل‘ 69 نے انجینئرنگ اور 197 نے اعلیٰ تعلیم کے دیگر اداروں میں داخلہ لیا۔ قبائلی اضلاع میں قائم کیڈٹ کالجز میں سپین کئی تازہ ترین اضافہ ہے جہاں سے 21 طلبہ فوج‘ 5 میڈیکل‘9 انجینئرنگ جامعات اور 46نے دیگر تعلیم اداروں میں داخلے لئے اور یہاں سے مجموعی طور پر 81 طلبہ نے غیرمعمولی تعلیمی کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ شورش زدہ قبائلی اضلاع میں حالات معمول پر لانے اور معیاری تعلیم کے مواقعوں کی صورت اِن علاقوں کی پائیدار اور حقیقی ترقی کا عمل جاری و ساری ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)