پشاور سے محبت کی لازوال کہانی

مریم بابر کی جنم بھومی حیدر آباد دکن (بھارت) تھی لیکن ایک پاکستانی سفارتکار سے شادی کے بعد وہ پشاور آئیں اور اِس شہر کی محبت و سحر میں ایسی گرفتار ہوئیں کہ آخری دم تک یہاں رہیں اور اُنہیں پشاور ہی میں دفن کیا گیا جس سے یہ دونوں میاں بیوی انتہائی محبت کرتے تھے۔ مریم بابر اپنے سماجی و فلاحی کاموں کی وجہ سے خاص شہرت رکھتی تھی جبکہ اُنہیں زراعت سے بھی لگاو¿ تھا اور اِسے بطور ایک کاروبار کرتی رہیں۔ اُن کے اہل خانہ یاد کرتے ہیں کہ مریم بابر نے اپنی زندگی کے آخری چند برس ضرورتمندوں کی مدد کرنے میں بسر کئے اور یہی اُن کے لئے باعث سکون و اطمینان قلبی کا باعث تھا۔ اُن کی صاحبزادی زہرا رومانہ کا ماننا ہے کہ اُنہوں نے اپنی تمام صلاحیتوں اور وقت کا بیشتر حصہ بچوں کی پرورش اور گھر گرہستی کی نذر کیا جبکہ وہ انتہائی ذہین اور باعلم خاتون تھیں اور اِس سے کہیں زیادہ بڑے کام سرانجام دے سکتیں تھیں۔ مریم بابر کے شوہر بشیر بابر اُن کی پشاور سے محبت کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ”جب وہ حیدرآباد (بھارت) سے پشاور آئیں اور یہاں کے ماحول سے مانوس ہوئیں تو پھر اُنہوں نے کبھی بھی واپس جانے کا نہیں سوچا۔ حتیٰ کہ اُنہیں پشاور چھوڑنے کے لئے اِس جواز پر بھی قائل نہ کیا جا سکا کہ اسلام آباد میں ایک قطعہ¿ اراضی (پلاٹ) موجود ہے‘ جہاں ایک گھر بنانا چاہئے۔ وہ صرف بیوی ہی نہیں بلکہ معنوی لحاظ سے بھی میری ’شریک ِحیات‘ تھی۔ ہماری خوشحال ازدواجی زندگی 58 برس رہی اور اُس کی خواہش تھی کہ اُسے مزید 2 برس ملتے تاکہ ہم اپنے رشتے کے 60 سال پورے کر سکتے اور شادی کی ساٹھویں سالگرہ کے لئے اُس نے سوچ رکھا تھا کہ اُسے قطر میں منائیں گے۔“بشیر بابر برازیل میں پاکستان کے سفیر رہے ہیں۔ اُنہیں برازیل کے ایک لکھاری کے الفاظ یاد ہیں جس نے اُن کے ہاں عشایئے میں شرکت کے موقع پر کہا کہ اِس دعوت میں سب سے خوبصورت مریم ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ مذکورہ عشائیہ جے پور کے مہاراجہ اور مہارانی کے اعزاز میں بندوبست کیا گیا تھا اور اُس میں برازیل کی سب سے خوبصورت قرار دی گئی ’مس برازیل‘ بھی موجود تھیں‘ جو مذکورہ لکھاری کے خیالات سن کر زیادہ خوش دکھائی نہیں دیں اور اُس کی ناراضگی اِس قدرتھی کہ اِس کے بعد اُس نے مریم سے بات چیت ہی نہیں کی۔“ بشیر بابر ماضی کی یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اُن کے لئے اپنے محسوسات الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے اور اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ ایک طویل سفر طے کرنے کے بعد اُن کے لئے تنہا باقی ماندہ زندگی بسر کرنا مشکل ہے۔ وہ ایک بہادر خاتون تھی جس نے ہمیشہ ضرورت پڑنے پر حوصلہ اور ہمت دلائی۔ سال 1965ءکی جنگ کے بعد جب پاک بھارت تعلقات کشیدہ تھے اور اُن کے اثرات سفارتی تعلقات پر نمایاں تھے تب بشیر بابر نئی دہلی میں تعینات تھے‘ جسے وہ کھٹن دور قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اُن کی بیوی نے اُس مشکل دور میں اُن کا بڑا ساتھ دیا۔ اِس کے بیس برس بعد (1989ءمیں) جب اُنہیں دوبارہ بھارت میں تعینات کیا گیا اور اِس مرتبہ وہ ہائی کمشنر جیسے بڑے عہدے پر فائز تھے تب بھی اُن کا کہنا ہے کہ ایک بہت ہی مشکل کام (بھارت میں سفارتکاری) کو آسان بنانے میں اُن کی زوجہ نے بہت ساتھ دیا۔ بشیر بابر 1983ءسے 1987ءتک ایران میں سفیر رہے۔ یہ وہ دور تھا جب عراق ایران جنگ جاری تھی اور دارالحکومت تہران میں راکٹ گرتے تھے لیکن اِس موقع پر بھی بشیر بابر کے بقول اُن کی بیوی نے حوصلہ مندانہ کردار ادا کیا۔ بشیر بابر کی ایک اور مشکل سفارتی تعیناتی لبنان کے شہر بیروت میں رہی جہاں اسرائیلی قبضے کے خلاف تحریک تین برس سے جاری تھی۔ اِس دوران اُن پر ایک مرتبہ قاتلانہ حملہ بھی ہوا۔ ذہن نشین رہے کہ لبنان اُن چار ممالک میں سے ایک ہے جہاں بشیربابر نے بطور سفیر خدمات سرانجام دیں جبکہ دیگر تین ممالک بھارت ایران اور آسٹریلیا میں وہ سفارتکار عملے میں شامل تھے۔مریم بابر 6 دسمبر 1941ءکو حیدر آباد دکن (بھارت) میں پیدا ہوئیں اُن کا نام مریم حقانی تھا۔ آپ کے والد انتصار الدین حقانی معروف جاگیردار گھرانے کے چشم و چراغ تھے جو حیدر آباد ریاست میں خودمختار حیثیت سے مالی و دیگر سیاسی امور کے سربراہ تھے۔ آپ حیدر آباد دکن کے وزیراعظم لائق علی کے کزن اور طبیعات (فزکس) کے معروف ماہر ریاض الدین صدیقی کے برادر نسبتی تھے۔ مریم کی والدہ (ایوا میتھیو واٹ) کا تعلق سکاٹ لینڈ جبکہ والد بھارت سے تھے۔ والدہ سر رابرٹ واٹسن واٹ کے خاندان سے تھیں جو ایک معروف سائنسدان تھے اور جنگ عظیم دوئم میں ریڈار کی ایجاد سے مشہور ہوئے۔ مریم نے قیام پاکستان کے وقت کی یادیں ایک مرتبہ بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایک موقع پر اُن کی آبائی رہائشگاہ کے باہر بلوائیوں کا ہجوم اکٹھا ہو گیا‘ تب اُنہوں نے اپنے والدین کو باتیں کرتے سنا جو ایک پستول کے بارے میں بات کر رہے تھے۔ اُن دنوں مریم کی والدہ اپنے ساتھ پستول رکھتی تھیں تاکہ اگر کسی موقع پر بلوائی حملہ آور ہوجائیں اورلوٹ مار کریںتو وہ اپنے بچوںکو مار کر خودکشی کرلیں کیونکہ بلوائیوں کے ہاتھ بے حرمت ہونے سے یہی انجام بہتر ہے۔ تقسیم کے موقع پر سال 1947ءمیں یہ خاندان سکاٹ لینڈ منتقل ہوگیا اور اِس کے بعد مریم اوراِس کے بہن بھائیوں کے لئے زندگی کبھی بھی معمول پر نہ آ سکی حالانکہ وہ 1949ءمیں کچھ وقت کے لئے حیدرآباد بھی آئے تھے۔ 1950ءمیں اِس خاندان نے برطانیہ میں سکونت اختیارکر لی اور دو برس برطانیہ میں رہنے کے بعد کراچی آ گئے جہاں وہ پاکستان کے شہری بنے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارتی حکومت نے اِس خاندان کی سر رابرٹ واٹسن واٹ کی درخواست پر انہیں برطانیہ منتقل ہونے میں مدد کی تھی۔ یہ درخواست برطانیہ میں بھارت کے ہائی کمشنر کرشنا میمن کو ارسال کی گئی جس سے وزیراعظم جواہر لعل نہرو کو مطلع کیا گیا۔ جس کے بعد اُنہیں حیدرآباد سے بخیروعافیت بمبئی اور وہاں سے لندن پرواز میں سہولت کاری اُور حفاظت فراہم کی گئی۔ پاکستان منتقل ہونے کے بعد مریم نے سینیٹ جوزف سکول اینڈ کالج کراچی سے تعلیم مکمل کی۔ اُن کے والد پاکستان انڈسٹریل ڈویلپمنٹ کارپوریشن کے چیئرمین بنے جنہوں نے پاکستان کو صنعت کی راہ پر گامزن کیا اور مشرقی پاکستان میں ٹیکسٹائل مل لگائی۔ مغربی پاکستان میںشوگر مل اور کراچی شپ یارڈ قائم کی۔ اگرچہ حیدرآباد دکن مریم کی یادوں سے کبھی بھی محو نہیںہو سکا لیکن 1996ءمیں پشاور منتقل ہونے کے بعد اِس شہر کے ماحول نے اِس کمی کو بڑی حد تک پورا کر دیا۔ پشاور آنے کے بعد اِنہوں نے مضافاتی علاقے میں وسیع و عریض رقبے پر فارم ہاو¿س بنایا جس کے اطراف میں زرخیز زمینیں تھیں۔ مریم نے پھول اُگائے بالخصوص گلاب کی بڑے پیمانے پر افزائش کی۔ پھلدار درخت لگائے جن میں کیلا اور آم شامل تھے اور یوں زراعت کا کاروبار شروع کیا۔ مریم نے بہت جلد پشتو زبان بولنا بھی سیکھ لی اور سماجی سرگرمیوں میں حصہ لینے لگی۔ اُنہوں نے پشاور میں بے آسرا اور یتیم مسکین بچوں کے لئے ’ایس اُو ایس چلڈرن ویلیج‘ قائم کیا اور 1999ءمیں دوست ویلفیئر ایسوسی ایشن کا حصہ بن گئی جنہیں ’بورڈ آف ڈائریکٹرز‘ کا رکن بنایا گیا اور رحلت تک وہ فلاحی سرگرمیوں میںمشغول رہیں۔ قابل ذکر ہے کہ دوست ویلفیئر فاو¿نڈیشن نشے کے عادی افراد کی بحالی کا ادارہ ہے۔ علاوہ ازیں وہ ڈے کیئر سنٹر ‘نگہت شلٹر اور گلونہ کور جیسے فلاحی منصوبوں کی بھی مالی معاونت کرتی رہیں جو بچوں کی بہبود‘ تعلیم و علاج کے لئے کام کرنے والی غیرسرکاری تنظیمیں ہیں۔ سال 2002ءسے مریم ’سرحد رورل سپورٹ پروگرام کے فیصلہ ساز نگرانوں (بورڈ آف ڈائریکٹرز) کی رکن رہیں۔ وہ دراز قد اور محسورکن شخصیت کی مالکہ تھیں اِسی وجہ سے جس کسی محفل میں شریک ہوتی تو مرکز نگاہ رہتیں۔ مریم کی زندگی میں دکھ سکھ پر مبنی دھوپ چھاو¿ں سایہ فگن رہی۔ جوانسال بیٹے رحمان کی موت نے اُنہیں بہت غمزدہ رکھا۔ تین ہونہار اور تعلیم یافتہ بیٹیاں (شندانہ‘ زرمینہ اور زہرا رومانہ) اُن کے لئے باعث فخر رہیں جو مختلف شعبہ ہائے زندگی میں نمایاں مقام رکھتی ہیں اور اپنے والدین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے سماجی خدمت جیسے نظریئے کو بطور فرض پیش نظر رکھے ہوئے ہیں۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)