عوام الناس کی اکثریت کو اِس بات کا علم نہیں ہو گا کہ ایک ایسی پولیس اہلکار بھی ہیں جو بطور پولیس سربراہ (انسپکٹر جنرل پولیس) 3 صوبوں میں تعینات رہے ہیں۔ ایسے پولیس آفیسر بھی کم ہی ملیں گے جنہوں نے فرنٹیئر کانسٹیبلری اور نیشنل پولیس اکیڈمی کی سربراہی کرنے کے علاوہ وفاقی سیکرٹری‘ نگران صوبائی وزیر اور بطور انسپکٹر جنرل جیل خانہ جات کے طور پر خدمات سرانجام دی ہوں۔ محمد عباس خان کا حال ہی میں کورونا وبا ء کے سبب انتقال ہوا‘ اُن کی عمر 82 سال تھی جو مذکورہ عہدوں پر تعینات رہے اور بطور صوبائی پولیس سربراہ خیبرپختونخوا‘ پنجاب اور سندھ میں خدمات سرانجام دیں۔ درحقیقت وہ بطور صوبائی پولیس سربراہ خیبرپختونخوا میں 2 مرتبہ تعینات ہوئے۔ اِن کے ملازمتی ادوار (نومبر 1985ء سے جون 1988ء اور جنوری 1989ء سے ستمبر 1990ء) میں خیبرپختونخوا کا سرکاری نام ’شمال مغربی سرحدی صوبہ‘ تھا۔ خیبرپختونخوا کے پولیس سربراہ کے طور پر اُنہوں نے سرخ اینٹوں سے بنی پولیس پوسٹس بنوائی جنہیں رنگ روغن کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ بڑی شاہراؤں (ہائی ویز) پر بنائی گئیں اِن پولیس چوکیوں کا ڈیزائن ولایت خان مرحوم نے کیا تھا اور چوکیوں کا درمیانی فاصلہ بیس کلومیٹر رکھا گیا جن کی تعمیر کا بنیادی مقصد ہائی ویز پر ہونے والی ڈکیتی کی واردتیں روکنا تھا۔ عباس خان کے نام سے منسوب ’پولیس کا صدر دفتر‘ اِس بات کی نشانی ہے کہ اُنہوں نے جہاں بھی خدمات سرانجام دیں اُنہیں پذیرائی اُور عزت و احترام دیا گیا۔ اِن کے علاوہ جس دوسرے پولیس سربراہ کے نام پر ’صدر دفتر (پولیس لائنز)‘ کو منسوب کیا گیا وہ قربان علی خان تھے جو پنجاب کے پہلے انسپکٹر جنرل پولیس (آئی جی پی) رہے۔ عباس خان کی پنجاب میں تعیناتی کے دوران خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے راولپنڈی میں پولیس کنٹرول روم کو اُن کے نام سے منسوب کیا گیا لیکن یہ بات اُن کے اہل خانہ کو بھی کافی عرصے تک معلوم نہ تھی۔ عباس خان نے پنجاب میں بطور آئی جی پی 3 سال سے زائد خدمات سرانجام دیں اُور یہ عرصہ آبادی کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں تعینات رہنے والے کسی بھی پولیس سربراہ کا گزشتہ تیس برس کے دوران سب سے طویل دورانیہ ہے۔ عباس خان نے پنجاب میں تعیناتی کے دوران پولیس کو غیرسیاسی کرنے کے لئے انتھک محنت کی اُور اِسی کوشش میں اُنہوں نے 1996ء میں ایک کتابچہ بھی تحریر کیا جس کا عنوان ”پرابلمز آف لاء اینڈ آرڈر اینڈ پولیس ریفارمز (قانون کی حکمرانی میں رکاوٹیں اُور پولیس اصلاحات)“ تھا اُور یہی کتابچہ پاکستان میں پولیس اصلاحات متعارف کروانے کی جانب توجہ کا مرکز بنا جس کا ثمر ’پولیس آرڈر 2002ء‘ کی صورت نظر آتا ہے۔ انہوں نے اپنی تجاویز میں جن اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا تھا اُن میں پولیس فورس کو غیرسیاسی کرنا‘ پولیس فورس کے احتساب کے لئے خودمختار شکایات کا شُعبہ‘ پولیس اَفسران کو اِنتظامی اُور آپریشنل خدمات کی انجام دہی میں زیادہ اختیارات دینا اُور پولیس فورس میں شامل اہلکاروں کی ہر درجہ تربیت کا انتظام تاکہ اُن کی پیشہ ورانہ خدمات میں اضافہ کیا جا سکے۔ اِن تجاویز میں جاپان کے ماہرین کی جانب سے ملنے والی سفارشات کو بھی شامل کیا گیا تھا۔ قابل ذکر ہے کہ جاپانی وفد حکومت ِپاکستان کی دعوت پر آیا تھا اُور انہوں نے پولیس فورس کی کارکردگی بہتر بنانے کے لئے سفارشات دی تھیں۔ جاپان کے ماہرین نے ’پولیس فار پیپل (پولیس عوام کے لئے)‘ کا تصور دیا جو پاکستان میں پولیسنگ کے طریقہئ کار ’پولیس فار گورنمنٹ‘ کے برعکس تھا۔عباس خان نے بطور ’آئی جی پی‘ خیبرپختونخوا اُور کمانڈنٹ (سربراہ) فرنٹیئر کانسٹیبلری بھی خدمات سرانجام دیں۔ آپ نیشنل پولیس اکیڈمی سہالہ میں 3 سال بطور کمانڈنٹ (سربراہ) تعینات رہے اُور اِس دوران پولیس کے تربیتی مرکز کے لئے وسیع رقبہ حاصل کیا جہاں کثیرالمقاصد تربیت گاہ بنائی گئی جبکہ اِس سے قبل نیشنل پولیس اکیڈمی ایک مختصر و محدود (سطحی طور پر) کام کر رہی تھی۔ عباس خان 1971ء کی جنگ کے قیدی بھی رہے اُور وطن واپسی کے بعد غیرروائتی طور پر‘ اُنہیں ’انسپکٹر جنرل جیل جات‘ تعینات کیاگیا۔ عباس خان وفاقی سیکرٹری برائے فرنٹیئر ریجنز‘ امور ِکشمیر اُور شمالی علاقہ جات (سیفران) بھی رہے اُور اُنہوں نے اُس وقت کے وفاقی وزیر برائے سیفران عمر خان آفریدی کا بھرپور ساتھ دیا جب نگران وزیراعظم معراج خان کے دور حکومت (1997ء میں) قبائلی علاقوں کے رہنے والوں کو ووٹ کا حق دیا گیا۔ دونوں کا تعلق پختون قبائل سے تھا اُور اِنہوں نے قبائلی علاقوں کے رہنے والوں کو جو طویل عرصے سے اپنے آئینی حقوق بشمول حق رائے دہی سے محروم تھے اُنہیں ملک کے سیاسی نظام میں شریک کیا۔ اِس فیصلے کی قبائلی عمائدین‘ افسرشاہی (بیوروکریسی) اُور دیگر طبقات نے شدید مخالفت کی لیکن اُس وقت کے صدر مملکت فاروق لغاری نے بھی قبائلی عوام کو ووٹ کا حق دینے کی حمایت کی اُور اِسے منظور کیا۔ اِس سے قبل قبائلی علاقوں کے رہنے والوں کو دیگر پاکستانیوں کی طرح ووٹ دینے کا حق حاصل نہیں تھا۔ عباس خان 1999ء میں مختلف حیثیتوں سے سرکاری ملازمت خوش اسلوبی سے سرانجام دینے کے بعد ریٹائر ہوئے تو اُن کی زندگی کا ایک نیا دور شروع ہوا اُور اُن کے تجربے اُور کارکردگی کو مدنظر رکھتے ہوئے مختلف حکومتی کمیٹیوں اُور کمیشنوں کا رکن بنایا گیا۔ عباس خان یکم مئی 2011ء کو ایبٹ آباد میں امریکی فوجی کاروائی سے متعلق تحقیقاتی کمیشن کے رکن بھی رہے۔اِنسان ’خطا کا پتلا‘ ہوتا ہے اُور طویل عرصہئ ملازمت کے دور اپنے کردار اُور کارکردگی سے ساکھ بنانا قطعی طور پر آسان نہیں ہوتا۔ عباس خان نے پولیس فورس کا حصہ رہتے ہوئے اُور بعدازاں مختلف اعلیٰ انتظامی عہدوں پر تعیناتی کے دوران بطور محنتی اور ایماندار آفیسر جو نیک نامی کمائی وہ کسی بھی طور معمولی نہیں یہی وجہ رہی کہ اُن کی وفات پر گہرے دکھ اُور صدمے کا اظہار کیا گیا اُور اُنہیں سفرآخرت پر رخصت کرنے اُور خراج عقیدتپیش کرنے والوں کی صف میں ہر مکتبہئ فکر سے تعلق رکھنے والوں کی کثیر تعداد شریک نظر آتی ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)