پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما سرانجام خان کا تعلق اگرچہ خیبرپختونخوا سے ہے لیکن وہ قومی سطح پر بھی درخشاں ستارے کی صورت جگمگاتے رہے۔ پختون روایات کےساتھ اصول پسندی‘ اپنے خاص سیاسی مو¿قف اور نظریاتی وفاداری کو ہمیشہ پیش نظر رکھنے والے سرانجام خان کسی بھی طرح رواےتی سیاستدان نہیں تھے بلکہ انہوں نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ ایک ایسے سیاسی دور سے وابستگی میں بسر کیا جو تادیر یاد رکھا جائے گا۔ انہیں شکار کا جنون کی حد تک شوق تھا اور اپنے اس شوق کی تکمیل میں وہ شکار کے قواعد و قوانین کی خلاف ورزی بھی کر گزرتے تھے۔ ان کے داماد شکیل درانی جو کہ اہم اعلیٰ سرکاری عہدوں پر فائز رہے‘ انکا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سرانجام خان کی ان سے کئی برس تک بات چیت بند رہی کیونکہ جب وہ کمشنر کوہاٹ تعینات تھے توانہوں نے اپنے سسر کو شکار کرنے سے روکا تھا۔سرانجام خان قدرت سے محبت اور لگاو¿ رکھتے تھے اور یہی وجہ تھی کہ ان کی نظر انتخاب ہمیشہ سوات رہتا جہاں انہوں نے پہلا مکان کالام جبکہ دوسرا مدین میں تعمیر کروایا۔ کالام والا گھر انہوں نے بعدازاں فروخت کر دیا تھاجبکہ مدین والا گھر 2010ءکے سیلاب میں بہہ گیا تھا۔
سرانجام خان مسلم لیگ ن کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات اور نائب صدور جیسے اہم عہدوں پر فائز رہے اور انہوں نے سینٹ میں چھ برس تک اپنی پارٹی نمائندگی کی لیکن پھر وہ وقت بھی آیا جب وہ خاموش رہنے کو ترجیح دینے لگے اور سیاسی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی بجائے پچھلی نشستوں پر بیٹھے دیکھے گئے اور یوں اپنی زندگی ہی میں آہستہ آہستہ نظروں سے اوجھل رہنے لگے۔سرانجام خان 9 اپریل 2020ءکے روز اسلام آباد کے ایک نجی ہسپتال میں کچھ عرصہ زیرعلاج رہنے کے بعد 88 برس کی عمر میں خالق حقیقی سے جا ملے۔ ان کے پسماندگان میں ایک بیٹا (طارق خان)اور تین بیٹیاں شامل ہیں‘سرانجام خان 1997-98ءمیں نواز لیگ کے ٹکٹ پر سینیٹر بنے جبکہ انہوں نے عام انتخابات میں صوبائی اسمبلی کا الیکشن بھی لڑا لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔ انہیں پارٹی کے قائد نواز شریف کا اعتماد حاصل رہا اور وجہ تھی کہ انہیں نواز لیگ کے مرکزی عہدوں سمیت سینٹ میں نمائندگی کےلئے موزوں تصور کیا گیا۔ 1999ءمیں نواز شریف کو ملک بدر کیا گیا تو اسوقت سرانجام خان ان چند لیگی رہنماو¿ں کی صف میں شامل تھے جنہوں نے نواز شریف کی اہلیہ کلثوم نواز کی حمایت کی تھی اور پارٹی معاملات کو اسوقت سنبھالا جب نواز لیگ سے وابستگی جرم تصور ہوتی تھی‘ سرانجام خان کی وفات کےساتھ ہی ان کی نوازلیگ کےساتھ رہی ایک طویل رفاقت اختتام پذیر ہوئی۔ مردان سے تعلق رکھنے والے جاگیردار لیگی رہنما نے کسی دوسری سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار نہیں کی حالانکہ انہیں ایسا کرنے کی کئی مرتبہ پیشکش بھی ہوئی اور دکھ سکھ کے ہر موسم میں نواز شریف کے ساتھی رہے۔ جب مسلم لیگ میں ایک موقع پر دھڑے بندیاں ہوئیں تو سرانجام خان نے حزب اختلاف کا کردار ادا کرنےوالی مسلم لیگ کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کیا۔
ایک عرصے تک وہ ممتاز دولتانہ کی قیادت میں کونسل مسلم لیگ کا حصہ رہے اور دیگر لیگیوں کی طرح کنونشنل مسلم لیگ کا حصہ نہیں بنے جس کا قیام فوجی حکمراں صدر ایوب خان عمل میں لائے تھے ۔سرانجام خان نے صدارتی انتخاب میں صدر ایوب کے مقابلے مےںمحترمہ فاطمہ جناح کا ساتھ دیا اور مردان میں محترمہ فاطمہ جناح کےلئے عوامی اجتماع کا اہتمام بھی کیا۔ اس وجہ سے وہ ایوب خان اور اس وقت کے مغربی پاکستان کے بااختیار و طاقتور گورنر نواب امیر محمد خان کی نظروں میں آ گئے۔ اس کے بعد جنرل یحییٰ خان‘ ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل ضیاءالحق نے پاکستان پر حکومت کی جبکہ سرانجام خان زیادہ آگے نہیں آئے لیکن وہ جمہوری سوچ کے حامل ایک ایسے سیاسی کارکن تھے جنہوں نے ساری زندگی کبھی بھی کسی غیرجمہوری طریقے سے آنےوالے حکمراں کا ساتھ نہیں دیا۔ انہوں نے نواز شریف کا ساتھ حزب اختلاف کے دور میں بڑھ چڑھ کر دیا اور ان کے شانہ بشانہ کھڑے دکھائی دیئے‘جب نواز شریف کو اقتدار سے الگ کیا گیا اور 1999ءمیں فوجی بغاوت ہوئی تو سرانجام خان نے ایک مرتبہ پھر مشکل راستے کا انتخاب کیا اور تمام تر دباو¿ کے باوجود انہوں نے پرویز مشرف کی بنائی ہوئی مسلم لیگ (ق) میں شمولیت اختیار نہیں کی۔ ان کے قریبی رفقا یاد کرتے ہیں کہ تب سرانجام کہا کرتے تھے کہ میں نواز شریف کو تنہا نہیں چھوڑوں گا چاہے ۔
مجھے اس کی کتنی ہی بھاری قیمت کیوں نہ چکانا پڑے‘ پٹھان گھرانے سے تعلق رکھنے والے سرانجام خان کی وفاداری مشروط نہیں تھی بلکہ وہ پٹھانوں کی اس روایت پر ساری زندگی عمل پیرا رہے کہ دوستوں کو کبھی بھی تنہا نہیں چھوڑا جاتا‘وہ اکثر یہ بھی کہتے تھے کہ اگر حکومت انہیں گرفتار کرتی ہے یا ان کے اثاثے ضبط کرتی ہے تو بھی وہ اپنی سیاسی وفاداری تبدیل نہیں کریں گے انہیں اکثر زمیندار کے لقب سے بھی پکارا جاتا تھا کیونکہ وہ ایک بڑی اور موروثی زرعی اراضی کے مالک تھے۔ ان کے والد بہادر خان آف بغدادہ کا شمار بھی علاقے کی معروف و سرکردہ شخصیات میں کیا جاتا تھا جبکہ ان کی والدہ کا تعلق رجڑ چارسدہ سے تھا اور ان کی بڑی بہن قوم پرست سرکردہ سیاستدان عبدالولی خان کی اہلیہ تھیں‘ اس طرح سرانجام خان‘ اسفندیار ولی خان کے رشتہ دار ہوئے لیکن عمر بھر ان کے سیاسی نظریات یکسر مختلف رہے۔
باچا خان اور ولی خان خاندان پختون قوم پرستی جبکہ سرانجام خان ساری زندگی پاکستانیت کا پرچار کرتے رہے‘ سرانجام خان کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے بھی حامی تھے‘ جبکہ پن بجلی اور آبپاشی کے اِس کثیرالمقاصد ترقیاتی منصوبے کی عوامی نیشنل پارٹی انتہائی مخالف ہے‘سرانجام خان اور عوامی نیشنل پارٹی کی قیادت کے درمیان خاندانی‘ سماجی اور دوستانہ تعلقات رہے لیکن دونوں فریقین اپنے اپنے سیاسی نظریات پر قائم رہے اور ایک دوسرے سے اتفاق نہیں کیا۔ سرانجام خان کا کوئی بھائی یا بہن نہیں تھے۔ ان کے بیٹے خالد سرانجام خان کئی برس قبل انتقال کر چکے جبکہ دوسرے بیٹے طارق سرانجام خان کئی برس امریکہ میں رہنے کے بعد پاکستان واپس لوٹے ہیں‘ شکیل درانی کے علاوہ ان کے دوسرے داماد سلیم عطا اللہ اور ڈاکٹر اعظم ہیں۔ ان کی صاحبزادی سلمیٰ عطا اللہ کینیڈا کے سینٹ کی رکن ہیں‘ سرانجام خان محدود پیمانے پر فلاحی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیتے رہے لیکن وہ سماجی بہبود کو بڑے پیمانے پر سرانجام دینے والوں میں شامل نہیں تھے‘سرانجام خان ایک رواےتی پختون تھے‘ جنہوں نے تمام زندگی اپنے قبیلے اور خاندان کی روایات کی پاسداری کی۔ ان کا شمار بااعتماد‘ پرخلوص‘ انتہا درجے کے ملنسار‘ مہمان نواز اور تعلق نبھانے والوں میں ہوتا تھا۔(بشکریہ: دی نیوز۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)