بعض کالم ایسے ہوتے ہیں جو اپنے آپ کو لکھواتے ہیں ‘وہ سکون سے بیٹھنے نہیں دیتے ‘ جو موضوعات ذہن میں ہوتے ہیں ان پر لکھنے بیٹھ جائیں تو اس پر ایک کالم کی شکل سامنے آ جاتی ہے‘ مگر بعض کالموں کو لکھنا پڑتا ہے بلکہ بعض اوقات زور سے لکھنا پڑتا ہے‘ پھر بعض کالموں کو نہ صرف زور سے لکھناپڑتا ہے بلکہ بنانا پڑتا ہے ‘ بعض اوقات موضوع سے ہٹ کر ایک کالم لکھنے کے لئے صرف ایک لائن بھی کافی ہوتی ہے ‘مثلاً” کمپیوٹر کے کی بورڈ پراس کی عینک پڑی تھی اور وہ خودکمرے میں نہ تھا“ اس سے آگے قلم لکھتا جاتا ہے ‘پھر تھوڑی دیر کے بعد ایک عدد کالم غائب سے وجود میں آ جاتا ہے ‘ دراصل وہ کالم ذہن میں تخلیق ہو چکاہوتا ہے بس اسے وجود دینا ہوتا ہے اور کاغذ کے سفید کینوس پر اتارناہوتا ہے‘پھر اس کی تراش خراش کرنا ہوتی ہے اس میں خوبصورتی ڈالنا ہوتی ہے اس کی نوک پلک سنوار کر اسے دوسروں کے آگے پیش کرنے کے قابل بنانا ہوتا ہے ‘مگر بعض کالم ایسے زور آور ہو تے ہیں جیسے موجیں مارتا ہوا کوئی دریا جو چھینٹے اڑاتا ہوا اپنے کناروں سے باہر ابل رہا ہو‘جس کا نہ چاہتے ہوئے بھی نوٹس لینا پڑتا ہے ‘لیکن اس سے ہٹ کر بعض دریا اپنی روانی میں اتنے آہستہ ہو تے ہیں جیسے کسی دریا کی تصویر ہوں‘ایسا کوئی کالم بھی ہوتا ہے جوآہستگی سے ذہن میں آتا ہے او رکسی نہ کسی دن اسے لکھنا پڑتا ہے۔
مگر ایک کالم اپنے آپ کو لکھواتا ہے ‘بعض کالم لکھے جاتے ہیں بعض کالم خود اپنے آپ کو لکھواتے ہیں ‘وہ ہفتہ بھر ذہن میںگھومتے رہتے ہیں اور زور زبردستی اپنے آپ کو لکھواکر ہی دم لیتے ہیں‘وہ اتنے جوش و خروش جذبے سے ذہن میں آتے ہیں کہ انھیں مجبور ہو کر لکھنا ہی پڑتا ہے ورنہ وہ ذہن میں خلل ڈال دیتے ہیں‘دن بھر یا ہفتہ بھر وہی کالم اور اس کالم کا مواد اس کا موضوع اس کا عنوان ذہن میں گھومتا ہے اور کلبلا کر ذہن میں رڑک پیدا کر تا ہے اور اس خراش سے نجات حاصل کرنے کو قلم کار اس موضوع کو آخر کار کالم نگاری کے اس سفید کینوس پر مصور کی مانند اتار لیتا ہے ‘مصور کی طرح کالم نگار بھی فطرت کا اور اپنے ماحول اور ارد گرد کانقاش ہو تا ہے جو وہ دیکھتا ہے اس کے تجربے اورمشاہدے میںآتا ہے مگر اتنا پاوررکھتا ہے کہ اسے لکھنا ہی ہوتا ہے وگرنہ دماغ میں خرابی کے آثا رشروع ہو جاتے ہیں ‘یہ کیتھارسس ہوتا ہے ‘جب تلک فلم دیکھتے ہوئے کسی فلم بین کے آنسو نہ نکلیں وہ کسی ہیرو کی ٹریجیڈی پر سوچ بچار کرتا رہ جاتا ہے ‘مگر یہ آنسو تو خود رو بہا ہوتے ہیں‘ جب پیمانے سے باہر چھلک جاتے ہیں تو فلم کے سیر بین کے غم زدہ دل کو ان گرم گرم آنسوں سے ایک طمانیت محسوس ہوتی ہے گویا اس کے دل کے زخموں پر ٹکور سی ہوجاتی ہے ‘یونہی کالم رائٹر اس کیتھارسس کے عمل کاحصہ بنتا ہے ‘جب تک وہ کسی حساس موضوع کو آخر کار لکھتا نہیں ہے اس سے نچلا نہیں بیٹھا جاتا ‘جب وہ اپنے الفاظ سپردِ قلم کر دیتا ہے تو اسے سکون کاسانس میسر آتا ہے ‘آدمی آخرِ کار مجبور ہو جاتا ہے کہ اسے لکھے اور جب اسے لکھنے کو بیٹھے تو اس کے سا منے اس کا مواد ہو اور وہ مواد خود بخود ذہن میں سے آکر ہاتھ میں تھامے ہوئے قلم کے اوپر سے اچھل کر قلم کی نوک سے آگے آگے کاغذ کی زمین پر گل اگاتا پھول کھلاتا گل کھلاتا یہاںسے وہا ںتک کاغذ کو رنگین کر تا جائے۔
ادب کی تخلیق کرتے ہوئے بھی ادیب و شاعر کے ساتھ اسی طرح کے واقعات پیش آتے ہیں‘ مگر کالم اور ادب کی تخلیق میںفرق ہے مگر یہ فرق تھوڑا سا ہے ‘صرف حالات ِ حاضرہ کو ذہن میں لا کر تحریر کی بنت کا نام کالم پڑ جاتا ہے مگر سیاسی اور حالاتِ حاضرہ کے واقعات کو ذہن میں نہ رکھا جائے اور زندگی کو نقل کر کے کاغذ پر اتار دیا جائے تووہ افسانہ بن جاتا ہے اور زیادہ صفحے ہوں تو ناول بن جاتا ہے ‘ پھر اگربات سے بات نکالنے والی صورت حال ہو اور لفظ کے سہارے دوسرے خیالات کو لکھنا ہو اور لفظ کوسیڑھی بنا کر دوسرے لفظوں تک پہنچناہواورزیادہ سے زیادہ مطلب دینے کی کوشش ہو تو وہ دو ڈھائی صفحے کی تحریر انشائیہ بن جاتی ہے ‘ مجھے گاہے گاہے کالم کے تکنیکی پہلو پرلکھنا ہوتا ہے ‘ کیونکہ طالب علم جو ایم اے اردو کر رہے وہ مجھ سے اس بابت پوچھتے ہیں کہ کالم اور ادب میں فرق کیا ہے ‘ اسی لئے میںاکثر نہیں تو بعض اوقات اپنی کالم نویسی میں اس موضوع کو کہ کالم کیسے لکھاجاتا ہے ایک ٹچ ضرور دیتا ہوں تاکہ ان سٹوڈنٹس کی رہنمائی ہو جن کے کورس میں کالم نگاری شامل ہے اور وہ کالم نگاروں پر تھیسس لکھ کر ایم اے کی ڈگری حاصل کرتے ہیں ‘پھر ان دنوں تو یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ لاک ڈان کے کارن کورونا وائرس نے ان طلباو طالبات کو گھروں کی چاردیواری تک محدود کر دیاہے اور وہ کالج آنے کے قابل نہیں ۔