افغان امن کاخواب

 دعویٰ کیا جاتا ہے کہ افغان قوم نے اپنے ملک میں کبھی کسی غیر ملکی طاقت کو حکمرانی کرنے نہیں دی ‘ سوال یہ ہے کہ کیا ان لوگوں نے افغانستان میں کبھی مقامی حکمرانوں کو حکومت کا موقع دےاہے؟ بالکل نہیں‘افغانستان میں1979ءکی روسی یلغار کے بعد کے حالات کا جائزہ لیا جائے تویہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ سوویت افواج کی شکست اور افغانستان سے انخلاءکا سہرہ امریکہ کے سر ہے جس نے روس سے ساٹھ کی دہائی میں ویت نام میں اپنی افواج کی شکست کا بدلہ افغانستان میںلیا ‘منصوبہ بندی کرکے امریکہ نے افغانستان میں سوویت جنگ کےخلاف جنگ کو جہاد کا درجہ دے کر دنیا کے تمام مسلمانوں کو اپنے ساتھ ملایا اور جنگجوﺅں کو ہر طرح مالی اور عسکری امداد دے کر اپنا مقصدحاصل کرلیا‘سوویت یونین ایک خارجی طاقت تھی اس کےخلاف جنگ کرکے ملک کو آزاد کرنے کے بعد چاہئے تو یہ تھاکہ افغانستان میں افہام و تفہیم سے مضبوط حکومت قائم ہوتی اور ملک خوشحالی کی راہ پر گامزن ہوتالیکن ہوس اقتدار نے ایسا نہیںہونے نہ دےا ‘امن معاہدہ تسلیم کرنے کے باوجود افغان رہنما افغانستان میں امن قائم نہ کر سکے‘افراتفری کے عالم میں ایک دوسری فورس طالبان کے نام سے افغانستان کے جنوبی شہر قندھارمےں معرض وجود میں آئی اور دیکھتے ہی دیکھتے بغیر قاعدہ قانون پورے ملک پر حاوی ہو گئی۔

طالبان نے بطور حکمران ایسے اقدامات اٹھائے کہ پورا ملک تاریک دور میں چلا گیا ‘ امریکہ میں 9/11 کے بعد افغانستان کو سنہری موقع میسر آےا کہ وہ باقی ماندہ ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہو جاتا‘ امریکی ڈالروں کی بھر مار سے پورا ملک ترقی کر سکتا تھا تاہم اگر کوئی رکاوٹ آڑے آئی تو وہ افغانستان کے اپنے باشندے تھے طالبان نے امریکہ کے زیر سایہ صدر حامد کرزئی اور صدر اشرف غنی کو ملک میں ترقیاتی منصوبوں پر عمل سے روکنے کیلئے خانہ جنگی کو بڑھایا‘طالبان کا یہ دعویٰ کہ وہ خارجی طاقت یعنی امریکہ کے خروج تک جنگ جاری رکھیںگے حقیقت کے برعکس ہے اگر وہ اس مفروضے پر سنجیدہ ہوتے تو وہ اپنے ہم وطن حکمرانوں سے ہی امن کی فضاءقائم کر دیتے تو امریکہ کو افغانستان میں موجود رہنے کا جواز ہی نہ ملتا دوئم یہ کہ انتخابات مےںکامیابی حاصل کرنے کیلئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کوشاں ہیں کہ جلد از جلد امریکی فوج افغانستان سے نکل کر واپس امریکہ آ جائے ۔

بے اعتباری کی فضا نہ صرف طالبان اور افغان حکومت کے مابین پائی جاتی ہے بلکہ حکمرانوں کے اندر بھی اعتماد کا فقدان ہے ‘ افغانستان میں 2019ءمیں صدارتی انتخابات منعقد ہوئے جس کے نتائج تمام امیدواروں کو تہہ دل سے تسلیم کرنے چاہئے تھے تاہم اشرف غنی کی ووٹوں کی گنتی کی سبقت کو ان کے حریف ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے تسلیم نہیںکیا‘ایک بڑے عرصے تک اختلافات سے غیر یقینی کی فضاءقائم رہی جسکا فائدہ لےکر طالبان نے حکومتی تنصےبات پر بھرپور حملے کئے اور حکومت وقت کو طالبان کے مقابلے میں بیک فٹ پر جانا پڑا‘ماضی میں دیکھا گیا ہے کہ جب بھی افغان حکومت طالبان کے حملوں کی وجہ سے پریشر میں آئی ہے تو وہ حکومت پاکستان کو طالبا ن کی امداد کا مورد الزام ٹھہرا کر اپنی ذمہ داری سے جان چھڑا لیتی ہے ‘ حقیقت یہ ہے کہ طالبان توکیا حکومتی رہنماﺅں کاآپس میں اتفا ق نہیں پایا جاتا‘عیدالفطر سے پہلے صدر اشرف غنی اور ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ میں ایک معاہدہ ہوا اور امید کی جاتی ہے کہ صدارتی محل میں بہتری کی فضا سے افغانستان میں امن قائم کرنے کی راہ ہموار ہو جائے گی‘ ۔

یاد رہے کہ اشرف غنی ‘ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ معاہدہ تب ممکن ہو سکا جب ٹرمپ حکومت سے دباﺅ آیا وارننگ کے طور پر امریکہ نے افغانستان کیلئے امسال ایک بلین ڈالر کی امداد روک لی ابھی تک سوال تھا کہ طالبان کے ساتھ افغان حکومت کا کونسا نمائندہ بات چیت کریگا اشرف غنی ‘ عبداللہ عبداللہ معاہدے سے واضح ہو گیا کہ یہ ذمہ داری ماضی کے چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کو سونپ دی گئی‘طالبان ‘افغان حکومت میں امن کی کامیابی کی امید اپنی جگہ لیکن ایک نئی صورتحال سے افغانستان کا مستقبل تاریکی میں جاتا ہوا نظر آ رہا ہے ‘ اسلامک سٹیٹ کی ابھرتی طاقت سے امریکی حکومت کو خدشہ لاحق ہے کہ جب افغان فوج اورطالبان آپس میں لڑ رہے ہیں مڈل ایسٹ سے آئی ہوئی اسلامک سٹیٹ افغانستان میں پنجے گاڑھ رہی ہے ‘مئی کے آغاز میں کابل کے میٹرنٹی ہسپتال پر حملہ ہوا جس میں نوزائےدہ بچے اور ان کی مائیں ہلاک ہوئیں‘ دوسرا حملہ ننگرہار میں پولیس چیف کے جنازے پر ہوا‘ دونوں واقعات کی ذمہ داری اسلامک سٹیٹ نے قبول کی‘دونوں واقعات میں ہلاک شدگان کا تعلق ہزارہ گروپ سے تھا ‘افغان حکومت اور طالبان کے مابین امن معاہدے کی کامیابی کے بعد بھی اسلامک سٹیٹ کی کاروائیاں افغان شہریوں کو امن سے محروم رکھےں گی۔