جنگ آزادی 1857کی تحریک سے بر صغیر پاک وہند میں بغیر کسی تفریق کے ایک آرزو شدت اختیار کر گئی کہ وہ انگریز راج کی غلامی سے چھٹکارا حاصل کرکے آزاد حیثیت حاصل کرسکیں۔آغاز میں آزادی کی تحریک میں مسلمان اور ہندو رہنماؤں نے مل کر حصہ ڈالا، تاہم کچھ عرصہ بعد مسلمانان ہند کو تشویش محسوس ہوئی کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ انگریز سرکار کے انخلاء کے بعد ہندو قوم مسلمانوں کو اسیر نہ بنا ڈالے۔ تب مسلمان رہنماؤں نے دو قومی نظریے تحت بر صغیر میں ہندو ریاست سے الگ آزاد مسلمان مملکت کی جدو جہد شروع کر دی۔ سر سید احمد خان، علامہ اقبال اور قائد اعظم محمد علی جناح جیسے عظیم رہنماؤں کی قربانیوں کی بدولت آخر کار مسلمانان ہند کی ایک الگ ریاست پاکستان14اگست 1947کو معرض وجود میں آئی۔مسلمانوں کا آزاد اور خودمختار زندگی گزارنے کا خواب پورا ہوگیا۔ تاہم آنے والے وقتوں نے ثابت کیا کہ اصل آزادی جغرافیائی آزادی سے ہٹ کر ہے اور وہ اقتصادی حیثیت میں آزاد اور خود مختار رہنا یا دوسرے معنوں میں خود کفالت کی منزل کو پانا ہے۔اس حوالے سے ماضی کی حکومتوں کی ناقص پالیسیوں سے پاکستان آج تک اقتصادی حیثیت میں آزاد نہیں ہوسکا،المیہ یہ ہے کہ آج بھی اخباروں کی شہ سرخیاں کچھ یوں ہوتی ہیں کہ”فلاں ملک نے اربوں ڈالر قرضہ دے کر پاکستان کو اقتصادی بحران سے بچالیا“ یا پھر”آئی ایم ایف سے مذاکرات کامیاب، اربوں ڈالر قرضہ حاصل کرنے کی راہ ہموار“ایسی خبریں کسی بھی طور حوصلہ افزاء نہیں ہیں۔ بیرونی اداروں سے قرض لینے کا سلسلہ 1958سے شروع ہوا۔جبکہ آئی ایم ایف قرض مہیا کرتا اور اپنی شرائط نافذ کرکے قرض کی واپسی کا مطالبہ کرتا رہا ہے۔ گزشتہ کئی مہینوں سے ایک بار پھر آئی ایم ایف سے قرضے کیلئے مذاکرات کا سلسلہ چلتارہا اور اب خبر ہے کہ مذاکرات کامیاب ہونے کے بعد اب معاہد ہوگیا اور قرضے کی راہ ایک با ر پھر ہموار ہوگئی ہے۔یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ قرض دینے والے ادارے کی شرائط کے باعث پٹرول سمیت بہت سی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوجاتا ہے۔آئیے قرضے کے حصول کیلئے پاکستان کی تاریخ کو دیکھیں کہ کیسے پاکستان آئی ایم ایف کے چنگل میں پھنستا گیا۔ 1958میں آئی ایم ایف سے رجوع کیا گیا اور دسمبر 25 ہزار ڈالر کا قرضہ حاصل ہوا۔ 1965میں وطن عزیز نے 37ہزار500ڈالر کا قرضہ لیا۔ 1968میں 75ہزار ڈالر،1973-74میں 75ہزار ڈالر،1977میں 80ہزار ڈالر۔ بحیثیت مجموعی 1980تک پاکستان آئی ایم ایف کا ساڑھے تین لاکھ ڈاکر کا مقروض ہوگیا۔80کی دہائی میں افغانستان میں روسی افواج کی یلغار روکنے کیلئے امریکہ سے پاکستان کو یکمشت سات لاکھ تیس ہزار ڈالر کا قرضہ مل گیا، محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور میں بھی پاکستان نے ساڑھے پانچ لاکھ ڈالر قرضہ حاصل کیا، جبکہ ان کے دوسرے دور میں پاکستان کو قرض کے طور پر سات لاکھ ڈالر ملے۔1997میں کامیاب بزنس مین نواز شریف کی حکومت آئی تاہم پھر بھی انہوں نے 4لاکھ ڈالر کا قرضہ لیا۔مشرف کے دور میں بات لاکھوں سے نکل کر کروڑوں تک نکل گئی۔2008میں تمام ریکارڈ توڑ کر 7.6ارب ڈالر کا قرضہ حاصل کیا گیا، یوں پاکستان پر کل قرضے کا بوجھ60ارب ڈالر تک چلا گیا۔پیپلز پارٹی کے بعد مسلم لیگ ن نے حکومت بنائی لیکن قرضہ لینے کا سلسلہ تھم نہ سکا اس دور میں بھی گیارہ ارب ڈالر قرضہ حاصل کیا گیا اور آج پھر پاکستان ایک اور قرضہ آئی ایم ایف سے حاصل کیا۔اس وقت تو قرضہ حاصل کرنے کو کامیابی سمجھا جارہا ہے تاہم ان قرضوں کے ضمنی اثرات اور ان کو واپس کرنے کا بوجھ تو موجود ہی رہے گا۔اب وقت آگیا ہے کہ ملک کو معاشی خودکفالت اور حقیقی طور پر آزادی سے ہمکنار کیا جائے۔ سی پیک جیسے منصوبے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے معاشی ڈھانچے کو مضبوط کرنے اور دوسروں پر انحصار کی بجائے معاشی ترقی کے رفتار کو تیز کرکے پرانے قرضوں کی واپسی کا راستہ ہموار کرنا ضروری ہے ہمارے سامنے کئی ممالک کی مثالیں ہیں کہ جوکسی وقت قرض لینے والے تھے اب قرض دینے والے بن گئے ہیں۔ہمیں بھی اس سوچ کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا۔جو ملک معاشی طورپر خود کفیل ہو اور دوسروں کی مدد اور قرضوں کی طرف نہ دیکھتا ہوں تو ایسے ممالک کی پالیسیاں بھی خود مختار ہوتی ہیں اور وہ جو کچھ کرتے ہیں اپنی مرضی سے کرتے ہیں کسی اور کی پالیسی کی پیروی کرنے کی انہیں ضرورت نہیں ہوتی اور دیکھا جائے تو یہی وہ آزادی ہے جو کسی بھی قوم کو اقوام کی برادری میں بلند مقام عطا کرتی ہے ہمیں اس وقت معاشی خود کفالت کی اشد ضرورت ہے۔