گزشتہ ماہ کابل ائرپورٹ پر لاکھوں کی تعداد میں افغانی اُمڈ پڑے تاکہ اپنے وطن سے بھاگ جائیں، پورے پورے خاندان بمع بچوں، عورتوں اور بزرگوں کے افرا تفری کے عالم میں کابل ائر پورٹ کے ارد گرد موجود تھے۔ وہاں امریکی ائرفورس کے دیو ہیکل سی سیونٹین طیارے موجود تھے اور یہاں پر جمع لوگ ایک دوسرے سے سبقت لے کر جہازوں پر چڑھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ملک چھوڑنے کا اس قدر جنون تھا کہ امریکی طیاروں کے اندر جگہ نہ ملنے کے باعث کئی افراد طیارے سے لٹک گئے جو بعد ازاں بلندی سے گر کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔افغان باشندوں کی ترک وطن کی کوششوں کی بڑی وجہ یہ تھی کہ امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک نے ان تمام افغان باشندوں کو اپنے ممالک میں آباد کاری کی پیش کش کی تھی۔ جنہوں نے ان کی افواج کو دو طرح سے مدد فراہم کی تھی۔ ایک یہ کہ غیر ملکی افواج کے اہلکاروں کیلئے بطور ترجمان کیا یا دیگر خدمات فراہم کیں۔ اپنی پہلی فہرست میں امریکہ نے 18000 ہمنوا افغانیوں کو امریکہ میں آباد کرنے کا اعلان کیا تھا۔ملک ترک کرنے والوں میں زیادہ تر لوگ پڑھے لکھے، ہنر مند، ڈاکٹر اور انجینئر تھے۔ افغانستان گزشتہ چالیس برس سے حالت جنگ میں رہا ہے، آج اسے پیروں پر کھڑا کرنے کیلئے ہر افغان کو اپنی قابلیت اور اہلیت کے مطا بق کوشش کرنی چاہئے، پڑھنے لکھے ہنر مند افغانوں کو اپنے ملک کا احسان چکانے کا خیال کیوں نہیں آیا؟جن کی تعلیم و تربیت پر اس ملک کے وسائل خرچ ہو چکے ہیں۔ دوسری طرف امریکی حکومت نے جو بھی معاشی امداد افغانستان کیلئے فراہم کی، بیس برسوں میں وہ دوسرے طریقوں سے واپس امریکہ لوٹا دی گئی ہے۔ امریکی امداد کی مد میں رقم افغانستان میں مخصوص طبقے کے بودوباش پر خرچ کی گئی۔ جبکہ امریکی ہتھیاروں بشمول ہوائی جہاز، ہیلی کاپٹر زکی فراہمی اور دیگر خدمات کیلئے امریکی سوداگروں کو استعمال کیا گیا۔ افغانستان میں سکیورٹی اور ایڈمنسٹریشن کے نظام کو امریکی ٹھیکیداروں کے سپرد کیا گیا تھا۔ وہاں متعین امریکی اہلکاروں کو بڑی بڑی تنخواہوں اور دوسری پرتعیش مراعات سے نوازا گیا۔ مقامی افغانوں کو قلیل تنخواہوں پر ادنیٰ کاموں پر لگایا گیا تھا۔ اس طرح امریکی حکومت افغانستان پر لگائی گئی نوے فیصد رقم واپس امریکی فرموں اور اہلکاروں کے ذریعے امریکہ منتقل کر چکی ہے۔حب الوطنی کا تقاضا ہے کہ امریکییوں کے انخلاء کے بعد ہر افغان اپنا اپنا حصہ ڈال کر وطن کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے میں مدد کرے، اپنا وطن چاہے کتنا ہی پسماندہ کیوں نہ ہو،اسے ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہر باشندے پر لازم ہے خاص کر ہنر مند اور اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد پر۔اس میں کوئی شک نہیں کہ افغان ایک محنتی اور دلیر قوم ہے اور اس مشکل سے نبردآزما ہونے کی ان میں صلاحیت ہے۔بس مصم ارادہ اور پختہ عزم کی ضرورت ہے۔