نہایت خوش آئند حقیقت ہے کہ پاکستان کی جغرافیائی ساخت کچھ اس طرح ہے کہ وافر مقدار میں مفت بالکل مفت‘ بجلی حاصل کی جاسکتی ہے امر واقع یہ ہے کہ دنیا کی سستی ترین بجلی آبی وسائل سے حاصل کی جاسکتی ہے پاکستان میں بلند ترین قراقرم پہاڑوں کا سلسلہ موجود ہے وہاں اژدھا نما گلیشیر موجود ہیں چونکہ قراقرم سے آگے جغرافیائی سطح ڈھلوان میں ہے تو گلیشیر کے پگھلنے سے پانی زور و شور سے رواں دواں رہتا ہے تا وقتیکہ دریائے سندھ کے ذریعے سمندر میں بہہ جائے اس تمہید کا مقصد یہ تھا کہ قدرت نے پاکستان کو آبی ذرائع سے سستی ترین بجلی کی پیداوار سے نوازا ہے ایک اندازے کے مطابق اگر دریائے سندھ کے مختلف حصوں پر چھوٹے چھوٹے آبی ڈیم بنا دیئے جاتے تو صرف یہ دریا تیس ہزار میگاواٹ بجلی پیداوار کی سکت رکھتا ہے آسان الفاظ میں قدرتی پانی کا قراقرم پہاڑوں سے نیچے سمندر کی سطح تک بہاؤ ایسا ہے جیسے آپ40 منزلہ بلند عمارت کی چالیسویں منزل سے ترچھی سمت میں پائپ ڈال دیں جس پائپ کا آخری حصہ گراؤنڈ فلور سے جالگتا ہے چالیسیویں منزل سے پائپ میں پانی ڈالیں تو دیکھیں گے کہ کتنے زور و شور سے وہ پانی پائپ کے آخر تک زمین سے جا لگتا ہے اور یہی پانی کی طاقت ہے جو بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے آبی ذرائع سے بجلی کی پیداوار کی افادیت سے آگاہی ضروری ہے اور یہ نعمت پاکستان جیسے چند خوش نصیب ممالک کو ہی حاصل ہے کیونکہ قدرت نے ہمیں ایسی جغرافیائی ساخت سے نوازا ہے جو آبی وسائل سے بجلی پیدا کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے البتہ آبی ذرائع کے حصول کا ایک ہی منفی پہلو یہ ہے کہ دوسرے ذرائع کی نسبت ان کی تیاری میں زیادہ رقم درکار ہوتی ہے اور دوئم یہ کہ منصوبے کے مکمل ہونے میں چند برس پر محیط عرصہ لگتا ہے لیکن آبی ذرائع سے منصوبے کی تکمیل کے بعد چاہے ملکی یا بین الاقوامی حالات کے زیر اثرجو بھی معاشی صورتحال ہوبجلی کی پروڈکشن کاسٹ میں ذرہ بھر اضافہ نہیں ہوتا بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ پروڈکشن کاسٹ میں کمی آتی رہتی ہے اور سب سے بڑی بات کہ نہ تو پٹرول اور نہ ہی گیس کی بڑھتی قیمتیں آبی ذرائع سے بجلی پیداوار کی لاگت کو متاثر کر سکتی ہیں۔ چند مثالیں: خیبر پختونخوا میں ملاکنڈ ڈیم 1938ء میں تعمیر ہوا‘ تقریباً 5 برس کے اندر ہی ڈیم پر آنے والی ابتدائی لاگت بجلی کی پیداوار سے واپس حاصل کر لی گئی‘ اس کے بعد حکومت کو بجلی کی پیداوار مفت پڑ گئی‘ اسی طرح ورسک ڈیم جو ساٹھ کی دہائی میں بنا تھا اس کی بجلی لاگت کے لحاظ سے اب بالکل مفت ہے۔صدر ایوب خان کا دور اس حوالے سے قابل ذکرہے کہ اس دوران ایسے منصوبوں کا آغاز کیا گیا جو آج تک پاکستان کی معاشی حالت میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس دور میں آبی ذرائع سے بجلی کی پیداوار کے دو میگا منصوبے لگائے گئے تھے‘ ایک تھا منگلا کے مقام پر منگلا ڈیم اور دوسرا تھا ضلع صوابی کے قریب تربیلا ڈیم۔ عوام کی بدقسمتی کہ اس کے بعد وافر آبی ذرائع کی موجودگی کے باوجود کوئی بھی نیا ڈیم نہیں بنایا‘ جبکہ دوسری طرفآبادی میں اضافہ اور نئی انڈسٹری لگانے سے بجلی کی مانگ میں بے تحاشہ اضافہ ہوتا چلا گیا۔دراصل آبی ڈیم کی تعمیر پر بے تحاشہ لاگت آتی ہے جو بین الاقوامی ذرائع سے حاصل شدہ قرضوں سے ہی ممکن یہ۔ لیکن دوسرا پہلو یہ ہے کہ ڈیم کے مکمل ہونے کیلئے چھ سے دس برس درکار ہوتے ہیں 90ء کی دہائی میں ملک میں موجود بجلی پیداواری منصوبے گھریلو اور تجارتی مانگ پورا نہ کر سکے تو مجبوراًلوڈشیڈنگ کا سہارالیاگیا، بعد ازاں IPP(انڈی پینڈنٹ پاور پلانٹ) تعمیر کر دیئے گئے چونکہ ان کی تعمیر میں چند ماہ کا عرصہ درکار تھا تو وقتی طور پر بجلی کی لوڈشیڈنگ میں خاطر خواہ کمی آگئی جبکہ ان منصوبوں سے وقت گزرنے کے ساتھ بجلی کی قیمت میں اضافہ ہوتا رہا۔یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ آبی ذرائع کے ساتھ ساتھ پاکستان میں دوسرے قدرتی ذرائع کی بھی بہتات ہے۔ سارا سال آفتاب اپنی طاقتور شعاؤں سے ملک کے ہر حصہ کو گرم رکھتا ہے اسی طرح سندھ کے علاقوں خاص کر ساحلی علاقوں میں پورا سال تیز ہوائیں چلتی ہیں دوسرے ممالک کی طرح اگرشمسی اور ہواکے ذرائع سے حاصل شدہ بجلی کیلئے بروقت منصوبہ بندی کی جاتی تو آج ہم بین الاقوامی سطح پر ایندھن کی قیمتوں اور ڈالر کی قدر میں اضافے سے پریشان نہ ہوتے۔