ریڈیو پاکستان پشاور کی اہمیت کی تین بڑی وجوہات ہیں اوّل یہ کہ یہ ریڈیو سٹیشن پاکستان کا سب سے قدیم ادارہ ہے جس کی بنیاد1935ء میں رکھی گئی تھی ریڈیو پاکستان پشاور ملک کا پہلا سٹیشن تھا جس نے1947ء میں پاکستان کا بطور خود مختار ملک بننے کا اعلان کیا تھا سوئم یہ سٹیشن ایک صدی پر محیط پشتو‘ ہندکو‘ علاقائی زبانوں‘ میوزک‘ ڈرامہ اور تاریخی تقاریر مبنی ریکارڈ کا امین ہے‘ خان عبدالقیوم خان نے جہاں صوبہ کی گرانقدر خدمت کی تھی پشاور ریڈیو کے قیام میں بھی ذاتی کردار ادا کیا تھا۔برصغیر ہندکی تقسیم سے قبل بطور سیاسی لیڈر ان کو لندن‘ انگلینڈ میں راؤنڈ ٹیبل کانفرنس1932-1930 ء میں مدعو کیا گیا تھا چونکہ اس وقت پشاور میں جدید ایجاد ریڈیو سٹیشن موجود نہیں تھا تو ان کی خواہش تھی کہ پشاور میں بھی اس وقت کے ہندوستان کے دوسرے بڑے شہروں کی طرح ریڈیو سٹیشن کا قیام ہو جائے لندن میں قیام کے دوران عبدالقیوم خان نے وائرلیس ٹیلی گراف کے موجد مارکونی سے ملاقات کی ان سے ایک عدد ریڈیو ٹرانسمیٹر پشاور کیلئے عطیہ کرنے کی فرمائش کی مارکونی نے اس فرمائش کی تکمیل کیلئے فوراً حامی بھرلی‘1935ء میں مارکونی کمپنی کے ریڈیو ٹرانسمیٹر کے ساتھ مارکونی خود پشاور آئے اور یہاں ایک نیا ریڈیو سٹیشن نصب کیا گیا اس وقت کے گورنر صوبہ سرحد(خیبرپختونخوا) سر رالف ایڈون ماچکن گرفتھ نے افتتاح کیا تھا‘ اگست1947 میں جب پاکستان کے وجود کا اعلان ہونا تھا تو غیرمنقسم ہندوستان کے تمام ریڈیو سٹیشنوں میں پشاور وہ واحد سٹیشن تھا میں نے عوام کو یہ خوش خبری سنائی۔ پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد کافی عرصہ تک فیچر فلموں کے علاوہ ریڈیو واحد ذریعہ تھا جس سے عوام خبروں تک رسائی حاصل کر سکتے تھے اور اسی ذریعہ سے نشر ہونے والے ڈراموں‘ موسیقی اور علاقائی زبانوں سے محظوظ ہوتے تھے ابتداء میں پشاور کے عوام کیلئے ریڈیو کی آواز ایک عجوبہ تھی کسی شخص یا سرکاری ادارے کے پاس یہ مشین نہیں ہوتی تھی اس وقت کی انگریز سرکار نے پشاور کے چند اہم مقامات پر ریڈیو سیٹ نصب کئے تاکہ عوام بھی ایک ڈبہ نما مشین(ریڈیو) سے انسانی آواز اور موسیقی سن سکیں جن مقامات پر ریڈیو نصب ہوا تھا اور جس کے اوقات محدود ہوتے تھے وہاں عوام کا ایک جمع غفیر پایا جاتا تھا‘ ریڈیو سٹیشن پشاور نے مقامی ثقافت اور موسیقی کی ترقی میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔دوسری جانب تاریخی اور اہم شخصیات کی تقاریر‘ اہم قومی اور مقامی اعلانات بھی محفوظ کئے رکھے تھے۔ ماضی کے پشتو زبان کے نامور گیت کار سبز علی‘ احمد خان‘ بادشاہ زرین جان کی سحر انگیز آواز میں گائے گانے کے ریکارڈ بھی اسی ادارے کی عمارت میں رکھے گئے تھے ہندکو‘ چترالی‘ گوجری اور دوسری علاقائی زبانوں کو اسی ادارے نے عوام سے متعارف کرایا۔حال ہی میں ریڈیو پاکستان پشاور کی عمارت میں توڑ پھوڑ کا جو واقعہ پیش آیا ہے اس نے ایک اہم تاریخی ورثے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا جس کا ازالہ شاید ہی ممکن ہو سکے۔ کیونکہ ایک صدی پر محیط اس عمارت میں محفوظ کئے ہوئے ریکارڈ بھی ضائع ہوگئے یہ پہلو باعث مسرت ہے کہ صرف ایک دن کے بعد ہی پشاور کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل سردار اظہر حیات کی کوششوں سے ٹرانسمیشن بحال ہوگئی تاہم1935ء سے لے کر2023ء تک عمارت میں محفوظ اردو‘ پشتو‘ ہندکو اور مقامی زبانوں میں نشر ہونے والی تقاریر‘ اعلانات‘ موسیقی کے پروگراموں کاریکارڈ جو توڑ پھوڑ کے دوران ضائع ہوا وہ کیسے واپس آئے گا؟ کیونکہ فن و ثقافت کے حوالے سے یہ اثاثہ ایک انمول خزانہ تھا جو ایک برس یا ایک دہائی میں اکٹھا نہیں ہوا بلکہ ایک طویل عرصے میں یہ ذخیرہ وجود میں آیا جس کے ضائع ہونے سے یقینا بہت فرق پڑا ہے‘جہاں تک ریڈیو پاکستان پشاور کے سٹیشن کو پہنچنے والے نقصان کا تعلق ہے تو اس حوالے سے تمام وسائل اور ذرائع کو بروئے کار لاتے ہوئے بحالی کی کوششیں جاری ہیں جو قابل تحسین ہیں۔