افغانستان میں متوقع مخدوش حالات نے ایک با رپھر خطے کے ممالک کو پریشانی میں مبتلا کردیا ہے، اہم ترین باگرام ائر بیس خالی کرنے کے بعد افغانستان سے امریکی انخلاء کا اہم مرحلہ مکمل ہوگیا۔امر واقع یہ ہے کہ کابل میں غیر ممالک کے سفارتخانے موجود ہیں ان سفارتکاروں اور ان کی فیملیز کیلئے افغانستان سے باہر جانے اور اندر آنے کا واحد راستہ کابل ائیر پورٹ ہے، اب تک ائرپورٹ کی حفاظت ترک افواج کی ذمے تھی، ستمبر 11کے بعد جب انخلاء مکمل ہو جائیگا تو ممکن ہے کہ ائرپورٹ کی حفاظت کی ذمہ داری افغان فوج کو سونپ دی جائے۔ تاہم امریکی صدر کو تشویش ہے کہ افغان فوج یہ ذمہ داری نبھا سکے گی کہ نہیں۔ یہ تشویش تو صرف چند ایکڑ پر محیط ائرپورٹ کی حفاظت کے حوالے سے ظاہر کی گئی ہے، ستمبر11کے بعد پورے افغانستان میں کیا صورتحال ہوگی اس کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ 11ستمبر کے بعد امریکی اور ناٹو فورسز کی غیر موجودگی میں افغانستان کس صورتحال میں جانے والا ہے اس کا منفی اثر پاکستان پر کیا ہوسکتا ہے، اس کے لئے ہمیں پہلے سے تیار رہنا چاہئے۔11ستمبر کے بعد چند قوتیں اقتدار میں آنیکی کوشش کریں گی۔ اشرف غنی کی حکومت اس کوشش میں ہوگی کہ وہ افغانستان کا کنٹرول قائم رکھے، لیکن بظاہر یہ ناممکن ہے کیونکہ نیٹو کے کئی ممالک اور امریکی افواج کی موجودگی میں بھی اشرف غنی کی حکومت دارلحکومت کابل تک ہی محدود رہی۔اقتدار کی دوسری قوت طالبان ہیں جن کے زیر کنٹرول علاقے میں روز بروز تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔تیسری قوت وہ تنظیمیں ہیں جو افغان حکومت اور طالبان دونوں کی مخالف ہیں۔ افغانستان میں غیر یقینی صورتحال کے پیش نظر شہریوں کی ایک بڑی تعداد ہجرت پر مجبور ہوسکتی ہے تاہم1979کی سوویت یلغار کے وقت اور اب کے پاک افغان سرحد میں بڑا فرق ہے۔ آج سرحد پر باڑ کی تنصیب ہو چکی ہے اور سرحدی راستوں پر سخت کنٹرو ل ہے جس کی وجہ سے غیر معروف راستوں سے داخلہ ممکن نہیں۔ حکومت پاکستان کو افغانستان سے آنیوالے مہاجرین کے بندوبست کی ابھی سے تیاری کرنی چاہئے اور یہ خوش آئند ہے کہ حکومت نے اس کیلئے تیاری کا عندیہ دیا ہے اور داخلی راستوں کے قریب ہی وسیع میدانوں میں کیمپ لگانے کا فیصلہ کیا ہے جس طرح ایران نے کیا تھا۔ 11ستمبر کے بعد پاکستانی علاقوں میں دہشت گردوں کی کاروائیوں کا دوبارہ خدشہ ہے اور ایک دکا واقعات سامنے آنے بھی لگے ہیں۔ مجھے پورا یقین ہے کہ ہمارے دفاعی ادارے11ستمبر کے بعد بننے والی علاقائی صورتحال کے لئے پوری طرح تیار ہیں، تاہم پاکستانی قوم کو آنے والے حالات کے لئے اپنے آپ کو ذہنی طور پر تیار رہنے کی اشد ضرورت ہے۔