سانس لینابھی سزالگتاہے

 جس طرف دیکھو چیخ و پکار ہے ایک یلغار ہے فریاد ہے ‘دل رو رہے ہیں جگر چھلنی ہیں‘آنکھیں سلگ رہی ہیں‘ذہنوں میں ہزار اندیشے ہیں ‘صورتحال کی گھمبیرتا بڑھ رہی ہے ‘کیاکریں کیا تدابیر اختیار کریں‘کیونکہ کورونا کے وار اس کی ضربیں زیادہ کاری ہوئی جاتی ہیں‘اس کو کارو کاری بھی نہیں کیا جاسکتاکہ پتھروں سے سنگسار کریں ‘یہاں تو معاملہ ہی کچھ اور ہے اور قابل غور ہے‘کیونکہ ہمارے ہاں کورونا میں وہ کاٹ نہیں وہ تپڑ نہیں کہ زیادہ سے زیادہ افراد کو اپنے آکٹوپس جیسے پنجوں میں جکڑ لے کیکڑے کی طرح شکار کو پھانس لے۔حالانکہ کہہ رہے ہیں کہ اسوقت ہمارے وطن میں کورونا اپنے شیطانی کھیل میں بامِ عروج تک پہنچا ہوا ہے ‘دلوں کی الجھنیں بڑھ رہی ہیں کیونکہ مشورے باہم نہیں ہو رہے ۔ ٹی وی پر کرسیوں والے کچھ اور کہتے ہیں اور ہسپتال سے ہو کر آنےوالے مریض کچھ اور کہانی سناتے ہیں ہاتھوں کو ہاتھوں سے دوری ہے ‘جسم کو جسم سے معذوری ہے‘ کہتے ہیںہاتھ نہ ملا ‘پہلے کہتے تھے کہ ایک دوسرے سے ایک میٹر کافاصلہ رکھو اب کہتے ہیں کہ ایک دوسرے سے زیادہ باتیں بھی نہ کرو ۔ بندہ چپ بھی اگر رہے تو کہاں تک خاموش رہے‘کل کہہ دیں گے کہ ایک دوسرے کو نہ دیکھو اور ماسک کی طرح آنکھوں پر بھی غلاف چڑھا کر چلتے پھرتے رہو ‘کیونکہ یہ کورونا توسورج کی شعاعوں سے بھی ایک دوسرے کو لگتاہے‘ کیونکہ ہر نئے دن کےساتھ نئی تدابیر بتلائی جاتی ہیں‘ ماسک کو تو لازم قرار دیا جا چکا ہے اور دستانوں کو دستور بنالینے پر ہدایت دی جا رہی ہے ‘مگرکہاں پہنتے ہیں کہاں دستانے چڑھاتے ہیں‘بس یونہی گھوم پھر رہے ہیں ‘کورونا کہ تو ایک افواہ سمجھ کر اس کےساتھ اسی طرح کا بے توجہی کا سلوک روا رکھا جا رہاہے۔

 کوئی کہتا ہے کہ ہا ںہے اور کوئی کہتا ہے نہیں ہے ‘روز لوگ مر رہے ہیں مگرہمارے ہاں اتنی تعداد میں شہری لقمہ اجل نہیں بنے جتنا دوسرے ترقی یافتہ ملکوںمیں جان کی بازی ہار چکے ہیں ‘ہمارے ملک میں توسی کلاس کا کوروناہے‘ اس کے جراثیم کی شکلیں بھی تو مقررہ نہیں ‘خطے کے حساب سے یہ اپنی شکلیں بدل رہاہے ۔ بہت حیران کن کہانی ہے کورونا کورونا کی صدائیں چاروں اور سے بلند ہو رہی ہیں ‘میر تقی میر نے برس ہا برس پہلے کہا تھا ’لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام ۔ آفاق کی اس کارگہ شیشہ گری گا‘اب تو وہ وقت آ گیا ہے کہ اس شہر میں’ سانس لینا بھی سزا لگتا ہے‘ کرسیو ںپر بیٹھنے والے جو کانفرنس کرتے ہیں اس میں وہ خود ایک دوسرے کے قریب بیٹھے ہوتے ہیں اور ماسک پہننا جیسے گناہ سمجھتے ہیں‘دوسروں کو نصیحت کرنےوالے یہ لوگ ہدایت جاری کر تے ہیں کہ کورونا سے گھبرانا نہیں ہے سیر کو پہاڑوں پر نہیں جانا‘گھر سے نہیں نکلنا‘گھر کی چاردیواری کو اوڑھنا بچھونا بنالو۔ مگر خود یہ لوگ فخر کےساتھ عید کی چھٹیاں منانے کےلئے پہاڑی مقامات پررنگین شرٹیں پہن کر جا رہے ہیں ‘نتھیا گلی ہو کہ دوسرا مقام ان کی پہنچ میں ہے ۔ گاڑی سے گئے یا ہیلی کاپٹر سے وہاں پہنچ دوسروں کو اپنا تماشا دکھلاتے ہیں‘ پھروہاں کے مقامی لوگوں کےساتھ سیلفیاں بھی بنتی ہیں اور ساتھ بات چیت بھی ہوتی ہے ان سے گھل مل بھی جاتے ہیں‘ مگران کو سیلفی بناتے وقت ایک دوسرے سے دور ہونا بھول جاتا ہے ۔

 آپسی فاصلے قائم رکھنا ان کو یاد ہی نہیں رہتا ‘دوسروں کو نصیحت کرنےوالے خود ہی لاک ڈان کی دھجیاں اڑا رہے ہیں ‘عوام کو چھوڑےں جو سمجھ دار ہیں وہ کون سی اچھی مثالیںپیش کر رہے ہیں‘نوجوانوں کو قرضے دینے کی بات ہے بیروزگاروں کو نوازنے کا ذکر ہے ‘ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھر دیں گے ‘مگر کوئی احساس نہیں کوئی احساس پروگرام نہیں لوگ رُل رہے ہیں ‘بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا دفتر ہے یا احساس کا آفس ورسک روڈ پردارمنگی گاں سے آگے کہیں ویرانے میں ایک گلی کے اندر بنگلے میں قائم ہے‘ جہاں مرد و خواتین کے مسئلے حل کئے جاتے ہیں‘وہاں جائےں تو راستے میں ٹیکسی کا کرایہ آنے جانے مےں ہزار روپیہ لگ جائے اور کام بھی ہوتا ہے کہ نہیںکم از کم سڑک کنارے بورڈ تو لگ جائے‘صبح دس بجے کی وہاں پہنچی ہوئی خواتین دن دو بجے تک گرمی میں بعض تو معذوری کی حالت میں بیٹھی رہتی ہیں ۔ ایک رش کا عالم ہے ‘پھر مرد حضرات کو تو بنگلے سے باہر نکال کر چھاں میں بیٹھنے کو کہا گیا ہے ‘ نہ کوئی انتظار گاہ ہے اور نہ کوئی سایہ ہے جہاں سر چھپا کر اپنے نمبرکے آنے کا انتظار کیا جائے ‘مردوں سے کہا جاتا ہے کہ آپ کو دو بجے کے بعد اندر بلایا جائے گا۔اندر دو بندوںکاسٹاف ہے ‘ایک بندہ کمپیوٹر پربیٹھانظر آتا ہے اور دوسراگیٹ پر کھڑا لوگوںکو کنٹرول کر رہاہے ۔