ہمارے ایک دیرینہ دوست اور گورنمنٹ کالج میں قانون کے ایسو سی ایٹ پروفیسر جنید نثار کو تین دنوں کے اندر اندر کورونا میں پل کے پل قضا نے نچوڑ دیا۔ہائے کیا پیارے انسان تھے۔ ہنس مکھ اور محفل کی جان ۔کورونا ٹیسٹ پازیٹو آیا تھا تو خودگھر میں قرنطینہ ہوگئے‘ہمارے ایک اورووست کوکورونا نے آن گھیرا ہے ‘اب وہ اپنے ان دوستوںسے کہتے ہیں کہ مجھ سے آکر ہاتھ ملا¶ گلے ملو‘ وہ دوست جو کہتے تھے کہ کوروناوائرس کا چرچا جھوٹا ہے‘ مگراب ان سے کوئی ملنے نہیں جاتا‘یہاںتو حال یہ ہے کہ کورونا میں مرنے والے کے پاس بھی نہیں پھٹکتے ‘پھرنہ تو اس کے جنازے میں جاتے ہیں اور اگر جائیں تو بہت دور رہ رہ کر گھر آ جاتے ہیں‘ اپنی شکل بتلا جاتے ہیں کہ ہم جنازے میں شرکت کےلئے آئے تھے‘ پرکچھ حضرات تو صاف انداز میں اس قسم کی ایمر جنسی والی صورتحال میں بھی اپنے قریب ترین رشتہ دار ہو کر غائب ہو جاتے ہیں‘ پہلے تو جو آدمی کسی سے نہ ملتا تھا اور گھر میں رہتا تھا اسے اچھی نظروں سے نہیں دیکھتے تھے کہا جاتا تھا وہ سوشل نہیں ہے ‘اس کا آپسی میل جول ترک کر دینا بہت برا سمجھا جاتا تھا‘ بلکہ محفلوں میں جہاں چار آدمی اکھٹے ہوتے اس کا ذکر چلتا تو اس کےخلاف زہر اگلا جاتا تھا۔ مگر آج تو عالم اس طرح بدلا ہے کہ جو کسی سے نہ ملے اور گھر میں قید رہے اور آپسی میل جول ترک کر دے تو اس کو نہ صرف ہر آدمی اچھاکہتا ہے بلکہ اسے حکومت کے گھر سے بھی شاباشی ملتی ہے۔ ان دنوں تو عجیب کھیل جاری ہے جو پہلے برا تھا وہ اچھا ہو گیا اور جو قبل ازیں اچھی چیز سمجھی جاتی تھی وہ بری ہو گئی۔
کوروناوائرس نے تو جیسے چھلنی میں سے سب کچھ گزار دیا ہے ‘ جو گزر گیا وہ اچھا جو اوپر رہ گیا وہ برا اور انتہائی برا ہے ‘آج تو کوئی کسی محفل میں ہاتھ آگے کرے اور آپ نہ ملائیں تو آپ کو وہ بندہ بھی برا نہیں کہتا۔ وہ دل میں سوچتا ہے مجھے ہاتھ ملانے کی کوشش کرنےوالی ایسی حرکت نہیں کرنی چاہئے تھی اگر کوئی ماسک پہن کر آپ سے مخاطب ہے تو آپ اس سے نہیں کہہ سکتے کہ ازراہ کرم اپنا چہرہ دکھا¶ بلکہ پہلے تو پولیس چوکی اورناکہ پر موٹر سائیکل چلانے والوں کے ہیلمٹ کو چیک کیا جاتا مگر اب تو وقت نے تلوار کی وہ ضرب لگائی کہ سب کچھ بدل گیا ‘اب تو پٹرول پمپوں پرپٹرول دیتے وقت کوئی بھی یہ خیال نہیں کرتا کہ اگلے نے ہیلمٹ کیوں نہیں پہنا بلکہ وہ دیکھتا ہے کہ اس کو ماسک پہننا چاہئے‘ آج کل بھیڑبھاڑ میں اپنے دونوں ہاتھ پیچھے کر کے گھومیں اور کسی سے ہاتھ نہ ملائیں تو آپ قصوروار نہیں ہوں گے اورآپ سے کوئی گلہ مند نہیںہوگااور نہ دل میں کہے گا کہ دیکھویہ بندہ سوشل نہیں ‘پٹرول پمپ پر بات ہیلمٹ کی تو چلی ہے مگر وہاں اب کسی گاڑی والے کی گاڑی نہیں چلتی اور رک جاتی ہے ‘کیونکہ نہ تو پمپ میں پٹرول ہے اور نہ ہی گاڑی میں تیل ہے ‘پٹرول پمپ پر سیل مین لوگ ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے ہوئے ہیں اور رکاوٹیں کھڑی کرکے ہمارے سیاست دانوں کی طرح کرسیاں سنبھال رکھی ہیں‘ میں پوچھتا ہوں کہ اگر آپ نے پٹرول نہیں دینا یا پٹرول ہی نہیں تو آپ کیوںڈیوٹی پرآئے ہیں جائیں اس دھوپ کی گھڑی میں گھر کی چاردیواری کے سائے تلے بیٹھ کرآرام کریں‘کیونکہ کہا جارہا ہے آٹے کی طرح پٹرول کی یہ قلت بھی جلد دور ہونےوالی نہیں ‘پٹرول اگر ملتا بھی ہے تو لائن میں ملتا ہے اور وہ بھی سرکاری پمپوں پر سے مل سکے گا۔ اس کورونا نے تو بہت کچھ برباد کر دیا ہے ۔
پٹرو ل کوئی استعمال ہی نہیں کررہا سستا تو ہونا تھاکیونکہ جس چیز کی طلب نہ ہو وہ جتنی بھی مہنگی ہو آخر سستی ہو جاتی ہے ‘مرغی کولےں لاک ڈا¶ن میں کلو کے حساب میں سو سے نیچے چلی گئی تھی مگر اب پشاورمیں اڑھائی سو روپے فی کلو کو چھونے لگی ہے طلب اگر نہ ہو تو چیزیں سستی ہو سکتی ہیں‘جو چیز مہنگی ہے وہ لینا چھوڑ دیں تو خود اس کی قیمت گر جائے گی۔ یہ بڑے بیوپاریوں کی گیم ہے۔ حکومت ان کے سامنے بے بس ہے ‘حکومت کے اندر ان کی اپنی سی ایک اور حکومت ہے ‘ پٹرول کیوں سستا نہیں ہوگانہ تو گاڑیاں چل رہی ہیں خواہ پبلک ٹرانسپورٹ ہے اور یا پرائیویٹ گاڑیاں ۔کیونکہ نہ توکسی کے گھر جانا ہے اور نہ ہی کسی نے گاڑی میں رکشے میںہمارے ہاں آنا ہے۔ شہروں والے اپنے اپنے شہروں میں قید ہو کر رہ گئے ہیں‘ پھر ٹرینیں نہیںچل رہیںتو ڈیزل کی ارزانی تو ہوگی۔ بلکہ ہوائی جہاز تک اڈوں میں کھڑے کر دئیے گئے ہیں‘جب جہاز ہی نہیں چل رہے تو پٹرول کون فروخت کرےگا اور کس کو فروخت کرےگا‘پٹرول کمپنیاں واسطے دے رہی ہیں کہ خدارا ہم سے پٹرول لو‘مگر ہمارے ہاںالٹی گنگا بہتی ہے‘یہاں پٹرول سستا ہو کر بھی نایاب ہو گیا ہے ‘شاید پٹرول پمپ مالکان نے ایکاکیا ہے کہ جب تک پٹرول مہنگانہیں ہوگا نہیں بیچیںگے کیونکہ جو ان کے پاس سٹاک ہے وہ تو پرانی او رمہنگی قیمت والاہے اور اگر وہ سستی قیمت پر فروخت کریں گے تو انہیںبڑے نقصان کاٹیکالگے گا۔جانے اس وطن کےساتھ کیا کھیل کھیلا جارہاہے ۔